ترکی نے کہا ہے کہ ملک میں غیرقانونی طورپر مقیم ایک لاکھ شامی پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔ دوسری طرف پناہ گزینوں کی بڑی تعداد یونان میں داخل ہونے کی کوشش کررہی ہے جب کہ یونان میں حکومت اور عوام دونوں پناہ گزینوں کے آتے سیلاب پر سخت غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ سلیمان صویلو نے ٹویٹر پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں بتایا کہ جب سے صدر طیب ایردوآن نے روکے گئے پناہ گزینوں کےلیے یورپ کی طرف جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے اس کے بعد اب تک درنہ شہر سے ایک لاکھ پانچ ہزار 77 مہاجر سرحد عبور کرکے جا چکے ہیں۔ 76 ہزار مہاجرین صرف چند گھںٹوں کے اندر اندر ترکی سے یونان کی طرف روانہ ہوئے۔
ادھر کل اتوار کے روز یونان کے جزیرہ لیسبوس میں مقامی لوگوں نے سکالا سیکا مینیاس میں قائم پناہ گزینوں کے ایک مرکز کو نذر آتش کردیا۔
مذکورہ پناہ گاہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی طرف سے قائم کی گئی تھی تاہم رواں سال دو جنوری وہاں سے مہاجرین کو دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کے بعد اسے خالی کردیا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز کم سےکم 500 تارکین وطن 10 کشتیوں پر لیسبوس جزیرے پر پہنچے۔ انہیں دیکھ کر مقامی لوگ سخت برہم ہوئے اور انہوں نے ایک کشتی جس پر 50 افراد سوار تھے کو ساحل پراترنے سے روک دیا۔ مقامی لوگوں نے چیخ چیخ کر’واپس ترکی جائو’ کے نعرے لگائے۔
ادھر دوسری جانب یونانی حکومت نے کہا ہے کہ ترکی کی طرف سے مہاجرین کو روکنے کا فیصلہ تبدیل کرنے بعد ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین سرحد پر جمع ہوگئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی آمد یونان کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
یونانی حکومت کے ترجمان اسٹیلیو بیٹساس نے کہا کہ ترکی کی حکومت مہاجرین کی نقل مکانی کی حوصلہ افزائی اور ترغیب دے رہا ہے۔ موجودہ صورت حال یونان کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے مہاجرین کو یورپ کی طرف چھوڑنے کے اعلان کے بعد 13 ہزار شامی اور دوسرے ملکوں کے پناہ گزین ایران کی سرحد پر جمع ہیں جہاں سے وہ یورپ جانے کی کوشش کررہے ہیں۔
قبل ازیں یونان کی بارڈر پولیس نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں پر گولیاں چلائیں اور انہیں واپس کرنے کے لیے اشک آور گیس کی شیلنگ کی مگر جبکہ مہاجرین کی طرف سے یونانی پولیس پر سنگ باری کی گئی۔