یکشنبه 17/نوامبر/2024

اسرائیل کا ‘تنوا’ پلان کیا ہے؟ اور اسے کیوں تیار کیا گیا؟

منگل 18-فروری-2020

اسرائیل کا نیا فوجی منصوبہ "تنوا”  ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس وقت نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں امریکا کے سنچری ڈیل کا منصوبہ زیر غور ہے۔ یوں ‘تنوا’ نامی اسرائیلی فوجی منصوبہ بھی ‘صدی کی ڈیل’ کے جوہر اور زمانی اعتبار سے اس سے ہم آہنگ ہے۔جہاں تک سنچری ڈیل کا تعلق ہے تو وہ کھلم کھلا اسرائیل اور امریکا کی سازش اور مسئلہ فلسطین کے پیرامیٹرز کے لیےخطرہ ہے۔

‘تنوا’ نامی یہ منصوبہ اسرائیل کے موجودہ آرمی چیف جنرل ‘ایویو کوچاوی’ نے پیش کیا مگر اس پر مہینوں سے کام جاری تھا۔ اس منصوبے میں اسرائیلی فوج کو مختلف محاذوں پر لاحق خطرات اور ان کے انسداد کے لیے تیاری پر زور دیا گیا ہے۔ بالخصوص یہ منصوبہ  ایران کے معاملے کے گرد گھومتا ہے۔ اس پلان میں جنرل کوچاوی نے پیش کیا جس میں فوج کوجدید توپخانے اور جنگی طیاروں سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ترین حربی سامان فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ فوجی منصوبہ "صدی کی ڈیل” کے ساتھ ساتھ اسرائیلی سیاسی اہداف کے عین مطابق ہے۔ اسرائیل اس منصوبے کے ذریعے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے اور قبضے کے سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف محاذوں پر تعینات فوج کو مزید تقویت دینا چاہتا ہے۔

گرم محاذ

اس منصوبے کی گیند فرنٹ لائنوں پر تیزی سے گھوم رہی ہےخاص طور پر غزہ کی سرحد پر ، جو مستقل کے تناؤ کا  میدان دکھائی دے رہا ہے۔ اسرائیلی ریاست اور فوج اس وقت کنیسٹ کے انتخابات کی تیاری کررہی ہے۔ آئندہ ماہ مارچ میں‌ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات سے قبل اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ اور جنوب میں لبنان کے محاذ پر جنگ کی باتیں کی جا رہیں۔

جنرل کوچاوی کے "تنوا” منصوبے میں فوج کی ایک نئی ڈویژن کا قیام ، ایک ٹینک بریگیڈ کی بندش ، 150 ٹینکوں کی خریداری، موجودہ دہائی کے اختتام تک جنگی طیاروں کے اضافی اسکواڈرن کی تخلیق ، نیز فضائی دفاعی نظام اور پورٹیبل میزائلوں کی خریداری کا منصوبہ تیار کیا گیا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قابض ریاست  محاذ پراپنی موجودگی کوزیادہ تقویت دینے کی کوشش کررہا ہے۔

 اسرائیلی امور کے ماہر محمد مصلح نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کے موجودہ آرمی چیف "کوچاوی” اپنے پیش رو  "آئزنکوٹ” کے طرز عمل میں تبدیلیاں لا رہا ہے۔ آئزن کوٹ نے  اس مشن کو چھوڑ دیا تھا۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل آئزنکوٹ  نے ٹینکوں کی خریداری کو مسترد کردیا تھا اور فوج کو جانی نقصان سے بچانے سے گریز کیا تھا لیکن کوچاوی اب صدی معاہدے کے سامنے آنے کے بعد ایک اسٹریٹجک سیاسی مقصد کی خدمت میں فوجی ایڈجسٹمنٹ کررہے ہیں۔

عام طور پر  فوج ٹینکوں اور انفنٹری کے اسلحہ پر مرکوز ہے اگر وہ کسی فیلڈ حقیقت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے ، جس میں سب سے اہم زمین کا قبضہ ہے۔ نیتن یاہو نے گذشتہ برسوں سے مختلف انداز میں کام کیا ہے  جس سے فوج پر اعتماد کم ہوا ہے۔

اس منصوبے میں فوجی طرز عمل میں انقلاب کا آغاز کیا گیا ہے۔ تجزیہ نگار کے مطابق  "صدی کی ڈیل” کو آگے بڑھانے میں اسرائیلی فوج نھے  ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت سے کردار ادا کیا۔ اب اگر اس منصوبے کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف کہیں کوئی محاذ گرم ہوتا ہے تو فوج کو زمینی حالات کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

سلامتی تھیوری کی بحالی

امریکا کے سنچری ڈیل منصونے میں اسرائیل کی سلامتی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اردن کی وادی اردن کے اسرائیل سے الحاق سے شروع ہونے والی اور مغربی کنارے کو چھ الگ الگ علاقوں میں تقسیم کرنے سے شروع ہونے والی "صدی کی ڈیل” کی تفصیلات میں واضح طور پر اسرائیلی ریاست کی سلامتی کے اعلانت کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے میں سنہ 48 فلسطینی  عربوں ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کا منصوبہ اور مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے کی تجویز شامل ہے۔

اس تنازع میں اسرائیلی وژن کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے جس امر پر زور دیا گیا وہ سیکیورٹی خطرات اور اس کے حق کی تجاویز ہیں۔ خطرات کے مقابلے کے لیے اسرائیل کو جدید اسلحہ اور جنگی سامان سے لیس کرنے کی تجویز دراصل صہیونی ریاست کی خطےمیں دفاعی بالادستی کو یقینی بنانا اور پڑوسی ممالک پر اسرائیلی ریاست کی دفاعی طاقت کی دھاک بٹھائے رکھنا ہے۔

غزہ کی پٹی پر 2014 ء اور جنوبی لبنان  میں 2006 ء کے بعد قابض ریاست نے اپنی محاذ آرائی کے کام کو دونوں محاذوں پر تقویت بخشی ہے۔ غزہ اور لنبان کی سرحد پر لڑائی دو ایسے محاذ ہیں جہاں کسی بھی لمحے  جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ چار سال سے بنجمن نیتن یاھو ایران کے معاملے کو بھی صہیونی ریاست کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی