جمعه 15/نوامبر/2024

‘المثلث’ کے فلسطین سے الحاق کے پیچھے خفیہ صہیونی پلان کیا ہے؟

اتوار 16-فروری-2020

جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے لیے ‘سنچری ڈیل’ منصوبے کا اعلان کیا ہے اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں فلسطین کے ایک مضافاتی علاقے ‘المثلث’ کا نام بھی ذرائع ابلاغ میں بار بار لیا جا رہا ہے۔ سنا ہے کہ امریکا اور اسرائیل ‘المثلث’ کو مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی منصوبے کے تحت مجوزہ فلسطینی مملکت  کا نقشہ ‘سوئس پنیر سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے ‘المثلث’ کو مجوزہ فلسطینی مملکت میں شامل کرنے کے پیچھے اسرائیل کے اھداف ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘المثلث’ کا علاقہ غسنہ 1948ءکے دوران اسرائیل کے قبضے میں شامل ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔ اسرائیل اس علاقے کو فلسطینی مملکت میں کیوں شامل کرنا چاہتا ہے؟ اس رپورٹ میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔

نیتن یاھو کا منصوبہ

اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں اور غیر مصدقہ رپورٹس میں‌کہا جا رہا ہے کہ ‘المثلث’ کےعلاقے کو فلسطینی ریاست میں شامل کرنے کا منصوبہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے دماغ میں تیار ہوا۔

فلسطینی تجزیہ نگار انطوان شلحت کا کہنا  ہے کہ نیتن یاھو کے سیاسی حریف آوی گیڈور لائبرمین ‘المثلث’ کو فلسطین میں شامل کرنے کے مخالف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ تین مارچ کو اسرائیل میں‌ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات میں لائبرمین یاھو کو ‘ٹف ٹائم’ دے سکتے ہیں۔

آبادیاتی توازن میں تبدیلی

انطوان شلحت کا کہنا ہے کہ سنہ 2009ء میں دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنھبالنے سے قبل بنجمن نیتن یاھو نے کہا تھا کہ وہ سنہ 1948ء کے علاقوں میں فلسطینی عرب آبادی کا توازن تبدیل کرکے آبادی کا تناسب کم کرنا چاہتے ہیں۔ اس مذموم مقصد کے لیے اگرچہ صہیونی ریاست نے طاقت کے استعمال سمیت کئی دوسرے حربے بھی استعمال کیے ہیں۔ انہی میں ایک یہ حربہ بھی شامل ہے جس میں ‘المثلث’ کی فلسطینی عرب آبادی کو اسرائیل سے نکال کر فلسطینی ریاست میں ضم کرنا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ‘المثلث’ کو فلسطین میں شامل کرنے کے دو اسرائیلی مقاصد ہیں۔ پہلا تو یہ فلسطینی پناہ گزینوں کی اس علاقے میں واپسی کی امنگوں‌پر پانی پھیرنا اور دوسرا صہیونی ریاست میں آنے والی عرب آبادی کا تناسب کم کرنا ہے تاکہ مستقبل میں اسرائیل کو صرف اور صرف یہودیوں کا قومی ملک بنایا جاسکے۔

دوسرے ہدف کے بارے میں نیتن یاھو نے سنہ 2003ء میں‌اس وقت اپنا ویژن پیش کیا تھا جب وہ اسرائیلی حکومت میں وزیر خزانہ کے عہدے پر تعینات تھے۔

یہودی قومی ریاست

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینیوں‌سے سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فلسطینی اسرائیل کو یہودیوں‌کے قومی نظریاتی ملک کے طور پرتسلیم کرلیں۔ اس کے بدلے میں النقب اور الجلیل کے عرب اکثریتی علاقوں میں مستقبل کے اپنے عزائم کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ نیتن یاھو نے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں بسنے والی عرب آبادی کو معاشی امن کی پیشکش کی ہے۔ صہیونی ریاست کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اگر عرب آبادی فلسطینی ریاست کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی تو اسرائیل کی معاشی ترقی کی رفتار رک جائے گی۔

فلسطینی وجود کا حقیقی جوہر

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ سے متعلق اعلان کے بعد پیدا ہونےوالی صورت حال اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کے نتائج سے بے خبر ہے۔

تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا’المثلث’ سے دست بردار ہونا سنہ 1949ء میں طے پائے روڈوس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور یہ فلسطینی آبادی کو ایک نئے ضیاع اور نقصان سے دوچار کرنے کی مذموم کوشش ہے۔

تجزیہ نگار ابو ارشید کا کہنا ہے کہ اسرائیل دراصل آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے تصور ہی کو دفن کرناچاہتا ہے۔’المثلث’ کو فلسطینی مملکت میں شامل کرنا فلسطینی وجود کو مٹانے کی چالوں کا حصہ ہے۔

ان کا کہنا ہے ارض فلسطین میں بسنے والی فلسطینی آبادی ہی دراصل مملکت فلسطین کا جوہر ہے مگر صہیونی ریاست ایک بار پھر فلسطینی قوم کے گھیرائو اور محاصرے کے لیے کوشاں ہے۔

مختصر لنک:

کاپی