حالیہ برسوں کے دوران اسرائیل اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارتی روابط اور تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں موجود یہودی اور صہیونی لابی بھی اسرائیل اور چین کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے۔
چین میں اسرائیل کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تجارتی نوعیت کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی تجارتی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی ادارے اور تنظیمیں چین میں کام کر رہی ہیں۔ یوں چین نے بیجنگ کے ساتھ ایک قدم اور آگے بڑھ کر سیاسی میدان بھی دوستانہ مراسم کے قیام کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
اسرائیل چین کے لیے دلچسپی کا حامل ہے۔ اس کی وجہ اسرائیلیوں کے زندگی کے مختلف شعبوں میں مہارتیں ہیں جن سے چین استفادہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس طرح اسرائیل تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے والے چین کے قریب ہو رہا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل چین کی تیز رفتار اور تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی اور دیگر جدید سروسز کو اپنانے کے لیے کوشاں ہے۔
چین میں یہودیوں کی آمد
اسی رپورٹ سے جڑا ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا چین میں یہودی ہیں؟ تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھویں صدی ھجری میں یہودیوں کا ایک گروپ چین میں آباد ہوا۔ اگرچہ یہ گروپ انتہائی محدود رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ چینی سماج میں مدغم ہوگیا۔ اگرچہ اب بھی چین میں یہودیوں کی تعداد دوسرے اقلیتی مذاہب کے پیروکاروں کی نسبت کم ہے۔
چین میں یہودی روز مرہ کی سماجی زندگی اور سماجی دھارے کا حصہ ہیں۔ ان کے ہانگ کانگ، شنگھائی اور خاربین میں تجارتی مراکز ہیں۔ انہوں نے سائبیریا سے نویں صدی عیسوی میں ریلوے ٹریک کے ذریعے چین کے ساتھ آمد و رفت شروع کی۔ بیسویں صدی میں یہودیوں کی چین میں تعداد بڑھنے لگی۔ روس میں قتل عام اور بلشفیہ انقلاب کے دوران بھاگ کر چین میں جا پہنچے اور چین ان کی محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوا۔
جمہوریہ چین کے رہ نما ڈاکٹر چن یات سین کے صہیونی تحریک کے ساتھ سیاسی ہمدردیاں تھیں۔ ان کے امریکی پروٹیسٹنٹ کے ساتھ براہ راست روابط تھے۔ اس دوران وہ مسیحی ۔ صہیونیوں کے اور بھی قریب ہوگئے۔
دوسری طرف سین یات سین کو چین کے استعماری دبائو کو توڑنے کے لیے اتحاد کی ضرورت تھی اور وہ چینی استعمار سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر یات سین چینی کو یہودی قومیت کی نہج پر آگے لے جانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے اکیسیوں صدی میں کافی جدو جہد کی۔
بیسیویں صدی کے نصف میں یہودیوں کی چین میں آبادی میں اضافہ ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ سے 18 ہزار یہودی چین میں آباد ہوئے۔ شنگھائی کی طرف سے چین میں یہودیوں کی آمد اور ھجرت پر کوئی پابندی نہیں تھی اس لیے یہودی بڑی تعداد میں چین میں آباد ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
سنہ1845 سے 1950ء تک کےعرصے میں 40 ہزار یہودی چین میں آباد ہوئے مگر اس کے بعد چین میں یہودیوں کی تعداد میں کمی آگئی۔
دوسری عالمی جنگ کے منفی اور تباہ کن نتائج میں ایک سنہ 1948ء میں فلسطین میں اسرائیل کا قیام تھا۔ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے وجود نا مسعود کے بعد چین میں یہودیوں کی آمد میں بہ تدریج کمی آئی۔
ساتھ ہی ساتھ چین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرلیے۔ چین میں موجود یہودی تارکین وطن نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
چین میں یہودیوں کی زیادہ آبادی بیجنگ اور شنگھائی میں ہے۔ سنہ 1992ء میں چین نے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے یہودیوں کو اپنے ہاں صہیونیوں کو آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔
اگرچہ اس وقت چین میں یہودیوں کی تعداد 2500 کے لگ بھگ ہے تاہم ان کے اسرائیل ۔ چین تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اسرائیلی ثقافتی اثرات
یہ کہنا مشکل ہے کہ چین میں اسرائیل کی سفارتی، ثقافتی اور تعلیمی سرگرمیاں صرف یک طرفہ پرپیگنڈے کا حصہ ہیں بلکہ چین بھی اپنے تجارتی مفادات کے فروغ کے لیے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم کو مزی بڑھا رہا ہے۔
چین میں اپنے ہاں اسرائیلی پروپیگنڈے کو مثبت نظر سے دیکھ رہا ہے۔ دوسری طرف چین کی خواہش ہے کہ اسرائیل چین کی ٹیکنالوج، اقتصادی اور عسکری مصنوعات کا استعمال کرے۔ چین میں اسرائیل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ چین اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ابھرتا ہوا ملک ہے۔
چین نے حالیہ عرصے کے دوران ایک طرف خلیجی عرب ممالک اور دوسری طرف ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ تک رسائی کے لیے چین سمندری سلک روڈ کے منصوبے پر غور کررہا ہے۔
چین اور اسرائیل کے درمیان تعلیمی میدان میں بھی گہرا تعاون موجود ہے۔چین میں اسرائیل اور یہودیوں کے تعاون سے متعدد ادارے کام کررہے ہیں جن میں عبرانی زبان بھی سکھائی جا رہی ہے۔ خاص طور پر نان جینگ یونیورسٹی، ھنان یونیورسٹی اور شنڈونگ یونیورسٹی جیسے ادارے چین اور اسرائیل کے تعاون سے کام کررہےہیں۔
دوسری طرف اسرائیل چین کے 100 طلباء کو سالانہ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاںدے رہا ہے جب کہ اسرائیل میں چین اور بھارت کے 350 طلباء کو اسکالرشپ دیے جاتے ہیں۔
سنہ 2017ء میں جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اسرائیل میں 1000 چینی طلباء زیرتعلیم ہیں۔
سال 2017ء کے دوران تل ابیب سے بیجنگ، شنگھائی، گوانگشو، شنزین، شنگڈو میں براہ راست پروازوںکے ساتھ ساتھ ایک لاکھ 23 ہزار چینی سیاحوں نے اسرائیل کا سیاحتی سفر کیا۔