امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بالآخر صدی کی ڈیل نامی سازشی اسکیم کا اعلان کردیا گیا۔
ذرائع ابلاغ میں امریکا کے مشرق وسطیٰ کے لیے نام نہاد امن منصوبے کو’صدی کی ڈیل’ کا نام دیا گیا ہے۔ امریکا کی طرف سے نام نہاد امن منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی فلسطینیوں کی طرف سے اس پر سخت رد عمل بھی آیا ہے۔
منگل کے روز جاری ہونے والے اس نام نہاد منصوبے کے بعد فلسطینیوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے ماہرین کی آراء کی روشنی میں مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔
سنچری ڈیل کا مقابلہ کیسے کیا جائے
تجزیہ نگار حسام الدجنی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا سازشی منصوبہ فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا بہترین موقع ہے۔ اس اعلان سے فایدہ اٹھا کر فلسطینیوں کو اپنی صفوں میں پائے جانے والے اختلافات دور کرکے تمام فروی اور جزوی تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر امریکا اور اسرائیل کے خطرناک منصوبے کا بھرپور مقابلہ کرنا چاہیے۔ فلسطینیوں کے درمیان انتشار اور اختلافات ختم کرکے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو چاہیے کہ وہ غزہ کی پٹی کے حوالے سے اپنی انتقامی پالیسی تبدیل کریں اور مارچ 2017ء کو غزہ پرعاید کردہ پابندیاں ختم کی جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس اور دوسری فلسطینی قوتوں کو امریکا کے صدی کی ڈیل کے سازشی منصوبے کو روکنے کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ حماس اور فتح کو اپنی اختلافات بھلا کر ایک پرچم تلے آنا اور امریکا کے خطرناک منصوبے کا مقابلہ کرنے کا پروگرام وضع کرنا چاہیے۔ حماس کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ اور تحریک فتح کو قاہرہ میں کل جماعتی اجلاس میں شرکت کی دعوت دینا خوش آئند ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں حسام الدجنی کا کہناتھا کہ صدی کی ڈیل کا ٹارگٹ فلسطین کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں بلکہ القدس، غرب اردن اور غزہ سب اس میں برابر کا ہداف ہیں۔
اسماعیل ھنیہ کی دعوت
تجزیہ نگار اور رکن پارلیمنٹ فتحی القرعاوی نےحماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے موقف کو سراہا اور کہا کہ ھنیہ نے تمام فلسطینی قوتوں کو قاہرہ میں جمع ہونے کی دعوت دے کریہ ثابت کیا ہے کہ وہ امریکا کے سازشی منصوبے کے خلاف پوری قوم کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔
القرعاوی نے مزید کہا کہ عرب ممالک کی شرمناک خاموشی، فلسطینی اتھارٹی کی کمزوری اور عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل سےدوستی کے لیے بڑھتے اقدامات میں اسماعیل ھنیہ نے درست سمت میں دعوت دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں فلسطینیوں کو اپنی آزادی کے پروگرام کو پوری دنیا کےسامنے کھل کر پیش کرنا ہوگا۔ ہم کسی صورت میں امریکی اعلان کو قبول نہیں کرسکتے۔ اگر اس موقع پر فلسطینیوں میں اختلافات برقرار رہتے ہیں تو اس کا فائدہ امریکا اور اسرائیل کو ہوگا۔
سازگار حالات
مصر کی وزارت خارجہ کے سابق مشیر عبداللہ الاشعل نے کہا کہ عرب ممالک کی طرف سے پہلے ہی امریکا کی صدی کی ڈیل کو روبہ عمل لانے کے لیے حالات سازگار بنائے گئے ہیں۔ ایسے لگ رہاہے کہ عرب ممالک اسرائیل اور امریکا کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے صدی کی ڈیل سے پہلے ہی اس کے بہت سے پہلوئوں پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی اور وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں فلسطینی قوم کو امریکا کے صدی کی ڈیل کے منصوبے کا خود ہی مقابلہ کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت عرب ممالک یا عالم اسلام فلسطینیوں کی پشت پر نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے بڑے عرب ممالک اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہےہیں۔ عرب لیگ کی طرف سے فلسطینی اور لبنانی مزاحمتی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد لگتا نہیں کہ عرب ممالک کی طرف سے فلسطینیوں کی مدد کی جاسکے گی۔