امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےکل منگل کو مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے اپنے نام نہاد امن منصوبے کی تفصیلات کا اعلان کردیا۔ اس منصوبے میں مشرقی بیت المقدس اسرائیل کو دینے کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی ریاست اور اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے متعلق متعدد پہلو شامل ہیں۔
انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "آج وہ ایک ایسے منصوبے کا اعلان کررہے ہیں جو پورے مشرق وسطی میں امن اور نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر بن سکتا ہے جو پر امید مستقبل کےلیے کوشاں ہیں۔ خطے کی حکومتیں جانتی ہیں کہ دہشت گردی اور اسلامی انتہا پسندی سب کا مشترکہ دشمن ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ "فلسطین – اسرائیل تنازعات کے حل کے لیے تعمیری راہ پر گامزن ہیں۔” ان (فلسطین اور قبضہ) کے مابین امن قائم کرنا سب سے مشکل چیلنج ہوسکتا ہے۔ سابقہ انتظامیہ ان کوششوں میں بری طرح ناکام رہی لیکن میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے چپکے معاملات کے لیے منتخب نہیں ہوا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ آج ہم امن کی طرف ایک بڑا قدم اٹھا رہے ہیں اور اسرائیل نے جو کچھ حاصل کیا اس سے حیران ہوگئے۔ اسرائیل جمہوریت اور تجارت کا مرکز ہے ۔ اسرائیل ایک روشنی ہے جو پوری دنیا میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ یہودی قوم کے لیے ایک وعدہ تھا اور اس وعدے کے تحت انہیں ان کے مقدس وطن میں آباد کیا گیا۔
انہوں نے وضاحت کی ہمارا منصوبہ 80 صفحات پر محیط ہے۔ یہ کسی بھی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں زیادہ مفصل ہے۔ جیسا کہ میں نے مختلف مسائل کو دیکھا ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک محفوظ اور خوشحال خطے سے لطف اندوز کرنے کے لیے ان کو حکمت عملی کے حل کی ضرورت ہے۔ اس سے تمام فریقوں کو اطمینان حاصل ہوگا۔ ہم اسرائیل کی سلامتی کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے لیے بھی ایک آزاد ریاست کے حامی ہیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چار سال تک انکا پیش کردہ منصوبہ اوپن رہے گا۔ فلسطینی اس پر غور کریں اور پھر اسرائیل کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں۔ "ابو مازن ، اگر اب آپ امن کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم تمام اقدامات میں آپ کی مدد کرنے کے لیے موجود ہوں گے”۔
انہوں نے توجہ مبذول کروائی کہ میں نے ابو مازن (فلسطینی صدر محمود عباس) کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں ان سے ‘صدی کی ڈیل’ اور اس کے نظام الاوقات سے آگاہ کیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے یہ آخری موقع ہو گا کیونکہ ہماری طرح کی کوئی ٹیم نہیں ہوگی جو اسرائیل سے پیار کرے اور اسرائیل سے اپنے مطالبات منوائے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں نے اسرائیل کے لئے بہت کچھ کیا۔ ان میں سب سے اہم ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری اور یروشلم کو اسرائیل دارالحکومت تسلیم کرنا اور وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا تھا۔ امریکا اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرے گا۔
انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ فلسطینی عوام اپنی زندگی کے بہتر موقع کے مستحق ہیں جب کہ وہ دہشت گردی کا شکار ہیں۔ میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین امن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں مختلف فریقین کو زیادہ پرامن ماحول فراہم کرنے کے لے تفصیلی حل تجویز کرتا ہوں۔”
انہوں نے کہا فلسطینیوں کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے اور ان کی زندگی میں خوش حالی آئے گی۔غربت کا خاتمہ ہو گا۔ ہم فلسطینیوں کو ان کی آزادی تک پہنچنے اور پرامن بقائے باہمی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کریں گے۔
امریکی صدر نے اشارہ کیا کہ صدی کی ڈیل فلسطینیوں کو خوشحال ریاست کے لیے مکمل طور پر تیاری کرنے کا وقت فراہم کرتا ہے۔ اس معاہدے سے حماس اور اسلامی جہاد کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کا موقع ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں متحدہ عرب امارات ، بحرین اور عمان کا ان کے حیرت انگیز کام کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنے سفیروں کو آج ہمارے ساتھ اس تقریب میں شرکت کے لیے بھیجا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "مقدس سرزمین امن کی علامت ہونی چاہیئے ، تنازعہ کا میدان نہیں۔” انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل اردن کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مسجد اقصی اسی طرح رہے ، اور مسلمان اس مقام کی زیارت کرتے رہیں۔”
انہوں نے دعوی کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عالم اسلام سنہ 1948ء میں اسرائیل پر حملہ کرنے کی غلطی کی اصلاح کرے۔ ہم اس ویژن (صدی کا سودا) کامیاب بنانے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں اور بہت سارے ممالک ہمارے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بہت سے ممالک نئی فلسطینی ریاست میں نئے منصوبوں کے لئے 50 ارب ڈالر کی فراہمی میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔میرا منصوبہ فلسطینیوں کو مشرقی بیت المقدس اپنا دارالحکومت بنانے کا موقع دے گا جہاں امریکا بھی اپنا سفارت خانہ کھولے گا۔
لیکن انہوں نےکہا کہ میرا منصوبہ فلسطینیوں کے لیے فلسطینی ریاست حاصل کرنے کا آخری موقع ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے منصوبے کے مطابق روڈ میپ کو ایک مفصل منصوبے میں تبدیل کرنے کے لیے مشترکہ کمیٹی تشکیل دیں گے۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیاکہ امن منصوبے سے ملحقہ فلسطینی ریاست کی ضمانت ہوگی اور اسرائیل اسرائیل کا متحدہ دارالحکومت رہے گا۔
سعودی عرب اور بعض دوسرے خلیجی ممالک کی طرف سے امریکا کے اس منصوبے کا خیرمقدم کیاگیا ہےمگر اردن ، ایران اور ترکی جیسے بڑے ممالک نے امریکی امن منصوبہ مسترد کردیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے امریکی امن منصوبے کو فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا ذریعہ قرار دیا ہے۔