امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے لیے نام نہاد اپنے امن منصوبے ‘صدی کی ڈیل’ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ان سطور کی اشاعت تک مُمکن ہے امریکی صدر کے نام نہاد صدی کی ڈیل کا اعلان کردیا جائے۔ اب تک اس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ بھیانک اور خوفناک ہیں۔ درحقیقت یہ امن منصوبہ نہیں بلکہ فلسطینی قوم کے حقوق کی سودے بازی ہے۔
کیا واقعی امریکی صدر ٹرمپ صدی کی ڈیل کا اعلان کرنے والے ہیں یا محض وقت برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگرچہ امریکی صدر نے اپنے نام نہاد امن منصوبے کو عظیم الشان اور تاریخی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں دیر پا امن لانے کا منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ ہراعتبار سے اسرائیل کے مفاد میں ہے جب کہ فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کی اس میں نفی کی گئی ہے۔
امریکی امن منصوبے کے بعض پہلو ذرائع ابلاغ میں آتے رہے ہیں۔ ان پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے تو وہ نہایت بھیانک اور خطرناک ہیں۔
اس منصوبے کے ذریعے امریکا نے اسرائیل کو سنہ 1967ء کی سرحدوں میں واپسی کا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کے حق واپسی کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ پوری ارض فلسطین کی سرحدوں پر صرف صہیونی ریاست کا تسلط مانا جا رہا ہے۔ غرب اردن میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں کوجائزاور قانونی قرار دے کر فلسطینی ریاست کے تصور ہی کو ختم کیا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام اسرائیلی ریاست اور بنجمن نیتن یاھو کے مفاد میں ہے۔ نیتن یاھو کے اس لیے مفاد میں ہے کیونکہ آئندہ مارچ میں ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات میں سر پر ہیں اور یہ اعلان ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ نیتن یاھو اسرائیل کے وزیر اعظیم ہیں۔ فلسطینیوں کی صفوں میں انتشار ہے۔ عرب ممالک اس وقت اپنی اندرونی الجھنوں کا شکار ہیں۔ اس انتشار کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
امریکا اور اسرائیل کا مفاد
‘صدی کی ڈیل’ کے منصوبے پرامریکا نے دو سال قبل کام شروع کیا۔ تاہم اس کے خدو وخال غیر واضح تھے تاہم جب امریکی انتظامیہ نے یکے بعد دیگرے فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرنے اور ان کی مقدسات کے خلاف کے فیصلے صادر کرنا شروع کیے تو اندازہ ہوا کہ امریکا کوئی بہت بڑی اور خطرناک چال چلنے والا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منصوبے کی تیاری میں ٹرمپ کے داماد اور سینیر مشیر جیرڈ کشنر اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کے سابق ایلچی گرین بیلٹ پیش پیش رہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ نام نہاد امن منصوبے تیار کیا ہے بلکہ خطے اورعرب ممالک کے حکمرانوں سے ملاقاتیں تاہم موجودہ وقت اس حوالے سے اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہےکہ خطےکے موجودہ حالات پہلے ہی امریکی منصوبے کے لیے سازگار ہیں۔ یہاں کے سیاسی، سیکیورٹی، علاقائی، فیلڈ کے حالات فلسطینی مزاحمت کے خلاف امریکا اور اسرائیل کے وسعت اختیار کرنے والے اتحاد کی بدولت امریکیوں کو اپنے امن منصوبے کوآگے بڑھانے کا موقع مل رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی مزاحمت کے خلاف امریکا کے موقف کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل کی داخلی سیاسی صورت حال اور امریکا کی صورت حال بھی اس کے لیے موزوں ہے۔
ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور اپوزیشن لیڈر بینی گینٹز سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ فلسطینی پہلے تو ان کے امن منصوبے کی مخالفت کریں گے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے امریکا کے صدی کی ڈیل منصوبے کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ رام اللہ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اور اسرائیل کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ سرخ لکیر عبور نہ کریں۔
حماس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی قوم امریکا کے نام نہاد امن پلان کو ناکامی سے دوچار کرے گی۔ حماس کا کہنا ہے کہ صدر کی ڈیل فلسطینی قوم کے خلاف گھنائونی سازش ہے مگر ہم اسے مزاحمت کی فولادی چٹان سے اسے پاش پاش کردیں گے۔
تجزیہ نگار اسعد العویوی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ امریکی صہیونیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے صدی کی ڈیل کا منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ منصوبہ اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے مفاد میں ہے۔
قضیہ فلسطین کا مستقبل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینیوں کے ادنیٰ درجے کے حقوق کو بھی پامال کرنے کی کوشش ہے۔ غرب اردن پر اسرائیلی ریاست کی اجارہ داری کی اس گھنائونی سازش ہے۔ اس اسکیم میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں 242، 338 اور 194 کی بھی نفی کی گئی ہے جن میں ارض فلسطین میں خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کی بھی حمایت کی گئی ہے۔ محمد مصلح کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا پروگرام تمام سرخ لکیروں کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کیاگیا۔ حتی کہ اوسلو معاہدے کو بھی تباہ کیا گیا۔
اس وقت امریکا کی سرپرستی میں وادی اردن اور بحر مردار کو بھی صہیونی ریاست کی عمل داری میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
محمد مصلح کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے متفقہ طورپر امریکا کے صدی کی ڈیل کی سازش کے خلاف یک زبان ہونا خوش آئند ہے۔ تجزیہ نگاروں کا اس بات پراتفاق ہے کہ لمحہ موجود میں امریکا، اسرائیل اور اس کےاتحادیوں کی طرف سے فلسطین کے خلاف ‘صدی کی ڈیل’ بہت بڑی اور گھنائونی سازش اور قضیہ فلسطین کےمستقبل کو تباہ کرنے کی بھیانک کوشش ہے۔