فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت نام نہاد سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں حراست میں لیے گئے فلسطینیوں پر بدترین تشدد کی خبریں معمول کا حصہ ہیں مگرعباس ملیشیا کے وحشی جلاد اس تشدد میں اس حد تک چلے جائیں گے اس کی توقع نہیں تھی۔
تفصیلات کے مطابق یہ لرزہ خیز اور اندوہناک خبر تین فلسطینی لڑکوں سے متعلق ہے جنہیں عباس ملیشیا نے رام اللہ میں ایک جیولری کی دکان میں چوری کے شبے میں گرفتار کیا تھا۔
گرفتاری کے بعد عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے ان تینوں لڑکوں کو بے پناہ تشدد اور اذیتوں کا نشانہ بنایا ہے۔ متاثرہ لڑکوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا نے ان کے بچوں کے ہاتھ پائوں توڑ کرانہیں اعتراف جرم کرانے کے لیے آگ میں جلایا جوکہ ہراعتبار سے ایک غیرانسانی اور وحشیانہ طریقہ ہے۔
تشدد کا شکار لڑکوں کے والدین کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے جلادوں نے تینوں کے چہرے ڈھانپ کر انہیں گاڑیوں سے گھسیٹ کر کمرہ عدالت میں جج کے سامنے پیش کیا۔ تشدد کا شکار ہونے والے لڑکوں نے جج امجد شعار کو بتایا کہ تشدد کرکے ان کے ہاتھ اور پائوں توڑ دیے گئے ہیں اورہ چل نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ انہیں تشدد کے دوران آگ میں جلایا گیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے وفادار جج نے بھی مضروب لڑکوں کی طبی حالت خراب ہونے کے باوجود انہیں مزید 15 دن تک حراست میں رکھنے کی اجازت دی ہے تاہم فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں سے کہا ہےکہ وہ تینوں لڑکوں کے بارے میں تفصیلی میڈیکل رپورٹ پیش کریں۔
خیال رہے کہ فلسطینی قانون کے تحت کسی بھی سنگین الزام گرفتار قیدی کو بھی بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں مگر فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں کی طرف سے اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ جرم چاہے جس نوعیت کا ہو مگر قانون کی آڑ میں کسی شخص کو بے رحمی کے سات اذیتوں سے دوچار نہیں کیا جاتا۔
فلسطینی اتھارٹی کی قید میں تین فلسطینی لڑکوں پر تشدد کے اس وحشیانہ واقعے کے منظرعام پرآنے کے بعد عوام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور وحشی جلادوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

