صہیونی حکام کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کے خلاف انتقامی حربوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ چند مہینوں سے فلسطینی صحافیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے انتقامی حربوں میں غیرمعمولی اضافہ سامنے آیا ہے۔
سوشل میڈیا پرایک صحافی عطیہ درویش کی تصویر وائرل ہوئی ہے جس میں اسرائیلی فوج کی طرف سے ماری گئی گولی سے انہیں شدید زخمی حالت میں دکھایا گیا ہے۔
عطیہ کو اسرائیلی فوج نے دسمبر 2018ء کو مشرقی غزہ میں احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران گولیاں مار کر نہ صرف زخمی کردیا تھا بلکہ انہیں ایک آنکھ سے بھی محروم کریا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی گولیوں کی بوچھاڑ سے نہ صرف اس کی آنکھ چلی گئی بلکہ اس کا بایاں کان اور چہرہ بھی زخمی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد اسے علاج کے لیے مصر لے جایا گیا اور مصر میں ناکافی طبی سہولیات کے بعد اسے اردن لے جایا گیا تھا۔
اس وقت سوشل میڈیا پر’عین الحقیقہ ۔ لن تطفی #، اور # عین ـ عطیہ’ کے عنوانات سے ٹاپ پرٹرینڈ کررہے ہیں۔ یہ مہم سوشل میڈیا پر عطیہ درویش کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پرجاری ہے۔
عطیہ درویش کی بائیں آنکھ نے صہیونی ریاست کے جرائم کو ایک بارپھر دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ اس واقعے نے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے واقعات ایک پھر منظرعام پرلائے ہیں۔ عطیہ درویش وہ پہلے صحافی نہیں جنہیں آنکھ اور بینائی سے محروم کیا گیا بلکہ اس طرح کے کئی دوسری صحافی ہیں جو صہیونی ریاست کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان میں ایک مثال معاذ عمارنہ بھی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پرکئی شہریوں نے اپنی ایسی سیلفیاں پوسٹ کی ہیں جن میں انہیں اپنی بائیں آنکھ پرہاتھ رکھ کرانہیں پکڑے دکھایا گیا ہے۔ یہ طرزعمل اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہے۔