مشرق وسطیٰ میں امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتے تنائو کے جلو میں اسرائیل میں بھی ایران کےحوالے سے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں ایران کے خلاف جنگ کے حوالے سے کیے گئے ایک تازہ سروے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل،امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر حملہ کردینا چاہیے، چاہے اس کے نتیجے میں جنگ ہی کیوں نہ چھڑ جائے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے زیرانتظام نیشنل ریسرچ سیکیورٹی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اخبار ‘یسرائیل ھیوم’ کے تعاون سے ایک سروے کیا ہے جس میں یہودی آباد کاروں کی اکثریت نے ایران پرحملے کی حمایت کی ہے۔
سروے کی رپورٹ کے مطابق 31 فی صد کا خیال ہے کہ اسرائیل کا شمالی محاذ زیادہ خطرے میں ہے جب کہ 26 فی صد ایران کے جوہری پروگرام کواسرائیل کے لیے مرکزی خطرہ قرار دیتے ہیں۔
سروے میں 14 فی صد کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری کشمکش اساسی نوعیت کا سلامتی کا مسئلہ ہے۔
سروےمیں 800 افراد سے براہ راست رائے لی گئی۔ رپورٹ کے مطابق 14 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ حماس کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے جوہری خطرہ سمجھتے ہیں جب کہ اسرائیلیوں کی اکثریت حماس کو خطرہ قرار نہیں دیتی۔ 54 فی صد کا کہنا ہے کہ ملک کا داخلی محاذ جنگ کے لیے تیار ہے۔ جب کہ 72 فی صد اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے لیے تیار نہیں، 28 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہیں۔
82 فی صد کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو کسی دوسرے پرانحصار کے بجائے دفاع کے لیے خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ہوگی۔
پچاس فی صد کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے چاہئیں جب کہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل کو امریکا پراعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسرائیل پرحملے کی صورت میں امریکا تل ابیب کی مدد نہیں کرے گا جس طرح اس نے ایران کی طرف سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پرحملوں کے بعد ایران کے خلاف سعودی عرب کی کوئی مدد نہیں کی۔