اسرائیلی کے ہاتھوں 1948 میں قبضے لی گئی فلسطینی اراضی کے شمالی تکون میں عارہ اور عرعرہ نامی دیہات کے درمیان علاقے سے تعلق رکھنے والے فلسطینی ماہر عبدالطیف عبدالقادر یونس 37 برس صہیونی زندانوں میں گذارنے کے بعد اب اسیری کے 38 سال میں داخل ہوگئے ہیں۔ 62 سالہ کریم یونس اب کئی جسمانی عوارض کا بھی شکار ہیں مگرانہیں صہیونی جیلروں کی جانب سے کسی قسم کی طبی معاونت فراہم نہیں کی جارہی ہے۔
اسرائیلی عدالت کریم کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنا چکی ہے۔ اسرائیلی جیل حکام نے کریم کو 75 روز کے لیے سُرخ لباس پہنا دیا قبل اس کے کہ سزا میں کمی کر کے اُسے عمر قید یعنی 40 برس کی جیل میں تبدیل کر دیا جائے۔ کریم پر ایک اسرائیلی فوج کو ہلاک کرنے کا الزام ہے۔ کریم نے اسرائیلی جیلوں میں رہتے ہوئے دو کتابیں لکھ ڈالیں۔ ابھی اس کے سامنے چار برس کی قید اور ہے جس کے بعد 40 برس کی عمر قید اختتام کو پہنچ جائے گی۔
اسرائیل کریم یونس کو رہا کرنے سے اِس بہانے انکار کرتا ہے کہ کریم کے پاس اسرائیلی شہریت ہے۔ لہذا وہ 1948ء کے دیگر فلسطینی قیدیوں کی طرح قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتوں میں شامل نہیں ہو سکتا”۔
کریم اس وقت صحرائے نقب کی جیل میں قید کاٹ رہا ہے۔ اس سے قبل وہ ایک سے زیادہ اسرائیلی جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا ہے۔
ماہر عبدالقادر یونس کو اسرائیلی فوج نے 18 جنوری 1983ء کو جیل میں ڈالا۔ فلسطینی انسانی حقوق کے مندوب ریاض الاشقر نے بتایا کہ اسرائیل کی مرکزی عدالت کی طرف سے اسیر یونس کے اہل خانہ کو اسے ملنے سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کی ماں صبیحہ عبدالقادر یونس عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر کی مریضہ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے ملاقات کی شدید خواہش مند ہیں مگر قابض صہیونی جیلر اور بے رحم صہیونی اسیر کو اس کی والدہ سے ملاقات سے بھی محروم کررہے ہیں۔