ایرانی پاسداران انقلاب کی سمندر پار آپریشن کارروائیوں کی ذمہ دار تنظیم ‘فیلق القدس’ کےکمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی تین جنوری 2020ء کو عراق میں امریکی فوج کے فضائی حملے میں شہادت پرپورا خطہ س وقت کشیدگی کی لپیٹ میں ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اس کارروائی کے منفی اثرات کا دائرہ مزید پھیل رہا ہے۔ کیا قاسم سلیمانی کی شہادت سے خطے میں بھڑک اٹھنے والی یہ آگ فلسطین پہنچ سکتی ہے؟ اس تجزیاتی رپورٹ میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شہید قاسم سلیمانی کوان کے آبائی علاقے کرمان میں سپرد خاک کیے جانے کے کچھ ہی دیر بعد ایران نے عراق میں موجود امریکی فوج کے دو اڈوں کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ قاسم سلیمانی کی شہادت اور ایران کی طرف سے اس کی جواب میزائل حملوں کے بعد صورت حال مزید گھمبیرہوگئی ہے۔ اگرچہ امریکا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایرانی حملوں کےنتیجے میں اس کے فوجیوں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں 80 امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ فیلق القدس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی الحشد الشعبی ملیشیا کے نائب ابو مہدی المہندس امریکی بمباری میں شہید ہوگئے تھے۔ انہیں تین جنوری جمعہ کے روز صبح بغداد ہوائی اڈے کے قریب بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے کی مدد سے نشانہ بنایا گیا۔
قاسم سلیمانی گذشتہ ایک عشرے کے دوران مزاحمتی قوتوں کو تقویت دینے کے لیے کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسلحہ اور عسکری تربیت فراہم کرنے میں ان کی مدد کرتے رہے ہیں۔
خطے میں جاری کشیدگی میں فلسطینی مزاحمت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ قاسم سلیمانی کی قاتلانہ حملے میں شہادت نے نہ صرف امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھا دی ہے بلکہ اس کشیدگی نے اسرائیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
پریشان کن کشیدگی
مبصرین کا خیال ہے کہ خطے میں جاری کشیدگی کا یہ آتشیں گولہ تیزی سے خطے کے دوسرے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ قاسم سلیمانی کی شہادت اور اس کے بعد ایران کی طرف سے امریکا کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا اس امر کا اظہارہے کہ کشیدگی کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔
شہید جنرل قاسم سلیمانی نے کے سپرد خاک کیے جانے کے چند گھنٹے کے اندر اندر ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سخت اور بڑی فوجی کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے اس صورت حال پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سلیمانی کی شہادت کے منظر نامے سے اسرائیل کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم ایران نے امریکا کو جوابی پیغام دے دیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ ایران کا جواب اس سے کہیں زیادہ سخت اور خوفناک ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے واضح کیا ہے کہ اگر امریکا کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت کی گئی تو ایران اس کا اس سے بڑھ کر زیادہ طاقت اور شدت کے ساتھ جواب دے سکتا ہے۔ دوسری طرف ایران کی حامی فلسطینی مزاحمتی قوتیں اسرائیل کے ساتھ متحرک ہوسکتی ہیں اور فلسطین کا محاذ بھی گرم ہو سکتا ہے۔
ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کے بعد دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا نے ایران کے خلاف کارروائی کی تو ایران متحدہ امارات کے شہر دبئی اور اسرائیل کے حیفا اور تل ابیب کو بھی نشانہ بنائے گا۔
بدھ کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایرانی بمباری سے امریکی فوج کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور امریکا اس کا جواب نہیں دے گا۔ انہوں نے سابقہ دھمکیوں سے بھی رجوع کیا۔
اسرائیلی کابینہ کے بدھ کے روز ہونے والے اجلاس ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونےوالی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے علاوہ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ایران کے ساتھ معاہدوں پربھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
تجزیہ مگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کسی ایک شخص کا قتل نہیں بلکہ پورے خطے کی مزاحمتی قوتوں کو نشانہ بنانا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کسی بھی جنگ یا کشیدگی کا مرکزی محور ہوسکتی ہے۔
مزاحمت کاروں کی صلاحیت
فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے قاسم سلیمانی کی شہادت کی مذمت کوئی حیرت کی بات نہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نےفلسطینی مزاحمتی قوتوں کو لاجسٹک، عسکری اور مادی مدد فراہم کی اور یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ اور اسلامی جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد نخالہ ایران میں ہیں جہاں انہوں نے شہید قاس سلیمانی کی تدفین میں بھی شرکت کی ہے۔ اس موقعے پرایک انٹرویو میں اسماعیل ھنیہ کا کہنا ہےکہ وہ ایفائے عہد کے لیے ایران آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد حماس قاید انقلاب اسلامی آیت اللہ علی خامنہ، اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور شہید کے خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی شہادت سے فلسطینی مزاحمتی پروگرام متاثر نہیں ہوگا بلکہ فلسطین اور القدس کی آزادی تک جہاد جاری رہے گا۔
ڈاکٹرعبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے قاسم سلیمانی سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ سلیمانی نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو جنگی آلات فراہم کیے۔