جمعه 15/نوامبر/2024

‘اپنوں پرعرصہ حیات تنگ، صہیونی صحافیوں کے لیے دروازےکھلے’

جمعرات 9-جنوری-2020

فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی ماتحت انتظامیہ کی اسرائیل نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اپنے ہی شہریوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ یوں اسرائیلیوں سے دوستی اور فلسطینی قوم سے دشمنی فلسطینی اتھارٹی کی سرکاری پالیسی بن چکی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی صہیونیت نوازی اور فلسطینی صحافت سے نفرت کے مظاہر آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ فلسطینی صحافتی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ رام اللہ اتھارٹی نے فلسطینی صحافتی حلقوں پرعرصہ حیات تنگ کررکھا ہے جب کہ صہیونی ریاست کے صحافیوں کے لیے تمام دروازے کھلے ہیں۔ فلسطینی صحافیوں کو دانستہ طورپر انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔

صہیونی صحافیوں کی آئی بھگت کی ایک تازہ مثال تحریک فتح کے 55 ویں یوم تاسیس کے موقع پرجنین شہرمیں ہونے والی ایک تقریب میں اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل ‘2’ کے نامہ نگار یورام بن مناحیم کو بھی دعوت دی گئی جب کہ اس موقع پر سوائے مخصوص فلسطینی صحافیوں کو اجازت دی گئی اور بہت سے صحافیوں کو تحریک فتح کی تاسیسی تقریبات کی کوریج سے روک دیا گیا۔

فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح کی اس دوغلی پالیسی پر فلسطینی عوامی ، صحافتی اور ابلاغی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سینیر فلسطینی رہ نمائوں نے فتحاوی قیادت اور رام اللہ اتھارٹی کو اڑے ہاتھوں لیا اور مطالبہ کیا ہے کہ تحریک فتح بتائے کہ اس نے آخر صہیونی دشمن کے کسی صحافی کو جلسے کی کوریج کی اجازت کیوں دی گئی اور فلسطینی صحافیوں کو کیوں کر روکا گیا۔

فلسطینی سیاسی، سماجی اور ابلاغی رہ نمائوں کی طرف سے تحریک فتح کی اس پالیسی اور اقدام کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی ایک نئی اور گھنائونی شکل قرار دیا گیا۔

فلسطینی حلقوں کا کہناہےکہ  رام اللہ اتھارٹی اور تحریک فتح کی طرف سے اسرائیلی صحافیوں کی اس طرح آئو بھگت افسوسناک ہے۔ اسرائیلی ریاست کس طرح فلسطینی صحافتی حلقوں کو نشانہ بنا رہا ہے فلسطینی اتھارٹی اسے مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔ حالانکہ حال ہی میں اسرائیل نے القدس میں فلسطینی ٹیلی ویژن چینل کو بند کردیا جب کہ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اسرائیلیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہے۔

سینیرصحافتی عمر نزال نے ایک بیان میں کہا کہ غرب اردن میں فلسطینی صحافیوں پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل دونوں ہی قدغنیں لگا رہے ہیں جب کہ تحریک فتح کی طرف سے اسرائیلی صحافیوں کو آزادنہ کوریج کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے۔ اس سے قبل فلسطینی اتھارٹی قلقیلیہ، وادی اردن اور دیگر فلسطینی علاقوں میں تقریبات میں فلسطینی صحافیوں پر پابندیاں لگائی گئیں اور اسرائیلی صحافیوں کو آزادی دی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ طرز عمل القدس میں فلسطینی ٹی وی کے دفتر کو بند کرنے اور صحافی عادل ابو نعمہ کی گرفتاری کے ایک ماہ کے بعد دیکھی گئی۔

سال 2019ء میں صحافیوں پر 750 حملے

فلسطین سینٹرل پریس کلب کی رپورٹ کے مطابق سال 2019ء کے دوران قابض صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ القدس، غرب اردن اور غزہ میں فلسطینی صحافیوں کے 750 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

خیال رہے کہ چھ جنوری 2020ء کو جنین میں ہونے والی تحریک فتح کی تاسیسی تقریب میں اسرائیلی تجزیہ نگاراور صحافی بن مناحیم کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ اسی تقریب کے دوران فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر صحافی ابو صبرہ اور فوٹو گرافر محمد حمدان کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس موقعے پرکئی فلسطینی صحافیوں کو تقریب سے کوریج سے روک دیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی