سال 2020ء کے آغاز سے اسرائیل نے عرب ملک اردن اور مصر ‘لیویتھن گیس فیلڈ’ سے گیس کی سپلائی شروع کردی ہے۔ اردن جیسا بڑا عرب ملک اسرائیل سے گیس کی برآمد پرکیوں مجبور ہوا؟ اور کیا عوامی دبائو اور گیس ڈیل مخالف احتجاجی تحریک اس معاہدے کو رکوا سکے گی؟۔ اس رپورٹ میں انہی سوالات کے جواب تلاش کیے جا رہےہیں۔
یاد رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی وزیر توانائی یووال اسٹینز نےکہا ہے کہ دونوں ممالک اور امریکی "نوبل انرجی” کمپنی کے درمیان سنہ 2016 سے طے پانے والے معاہدے کے مطابق گیس لیویتھن فیلڈ سے اردن کوگیس کی سپلائی شروع کردی گئی ہے جب کہ مصر کو ایک ہفتے یا 10 دن کے اندر گیس کی سپلائی شروع کردی جائے گی۔
اسٹینز نے عبرانی اخبار’یدیعوت احروت’ سے بات کرتےہوئے کہا کہ ملک کے ساحل کے قریب وا قع "لیویتھن” گیس پلیٹ فارم پر گیس کی نکاسی کے تجربے کی کامیابی کے بعد اردن کو اس پلانٹ سے باقاعدہ گیس کی فراہمی شروع کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنی تاریخ میں پہلی بار توانائی برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ تل ابیب اردن جیسے بڑے ملک کو گیس فراہم کررہا ہے۔ آنے والے دنوں میں مصرکو بھی اس گیس فیلڈ سے گیس کی سپلائی شروع کی جائے گی۔
اسرائیل سے گیس کی خریداری پر اردن میں عوامی سطح پرسخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ اردن کے دارالحکومت عمان میں ہزاروں افراد نے ریلی نکالی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے گیس کی خریداری نہ صرف روکے بلکہ صہیونی ریاست کے ساتھ طے پائے تمام معاہدوں کو ختم کیا جائے۔
مظاہرے کے شرکاء نے اسرائیل کے ساتھ ‘منحوس’ معاہدے پر دستخط کرنے والے حکومتی ذمہ داروں کو برطرف کرنے اور سرکاری عمال کا کڑا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل سے گیس کی خریداری کے خلاف نکالے گئے جلوس میں ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون، مختلف یوتھ گروپ اورسول سوسائٹی کے گروپ شامل تھے۔انہوں نے اسرائیل اور اردن کے درمیان 2020ء کے گیس معاہدے کو منسوخ کرنے اور اسرائیل کے ساتھ ہرطرح کے تجارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
عوام کی مرضی کے خلاف
عمان میں اسرائیل سے گیس کی درآمدات کے خلاف نکالے گئے جلوس میں شرکاء نے اس ڈیل کو عوام کی منشاء کے خلاف قرار دیتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اردنی قوم اسرائیل کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات استوار کرنے کے خلاف ہے۔ اسرائیل ایک قابض اور غاصب ملک ہے جس نے امن کی تمام مساعی کو دیوار پردے مارا ہے۔ اس لیے اردنی عوام اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تجارتی اور کاروباری معاہدے کو مسترد کردی ہے۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اردنی سیاسی اور مذہبی رہ نمائوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے گیس کی خریداری صہیونی فوج کو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں قابض فوج کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل کے ساتھ طے پائے تمام معاہدے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اردن پر امریکی دبائو
فلسطینی پارلیمنٹ کے رلن سعود ابو محفوظ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ گیس کی خریداری کا معاہدہ کرانے کے پیچھے امریکی انتظامیہ کا ہاتھ ہے۔ امریکا اردن پر اسرائیل سے گیس کی خریداری کے لیے مسلسل دبائو ڈالتا رہا ہے تاکہ صہیونی ریاست کو کاروباری فواید فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ معاہدے میں جوڑا جاسکے۔
‘قدس پریس’ سے بات کرتے ہوئے ابو محفوظ کا کہنا تھا کہ النکبہ کے 70 سال کے بعد اسرائیل سے گیس کی خریداری معاشی نکبہ قرار دی جاسکتی ہے۔ اس معاہدے سے اسرائیل کو خطے کے گیس کے دیگر وسائل کو قبضے میں لینے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈٰیا پربھی اسرائیل سے گیس کی خریداری پر اردنی حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے سرکاری سطح پر اردن کو گیس کی فروخت کا اعلان کیا گیا ہے مگر عمان حکومت اس حوالے سے خاموش ہے۔
ادھراسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے کام کرنے والی عالمی تحریک’بی ڈی ایس’ نے کہا ہے اسرائیل کے ساتھ اردن کی گیس کی خریداری کا معاہدہ المیہ ہے۔ یہ ڈیل ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دوسری طرف عالمی سطح پر اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے مہمات جاری ہیں اور کمپنیاں اور ادارے صہیونی ریاست کا بائیکاٹ کررہے ہیں جب کہ اردن جیسے بڑے مسلمان عرب ممالک اسرائیل کی تجارتی معاہدوں کے ذریعے مالی مدد کررہےہیں۔