فلسطین کے حوالے سے گذشتہ سال امریکا کی طرف سے جو اہم اعلانات کیے ان میں ایک اہم ترین اعلان فلسطین میں اسرائیل کی غیرقانونی یہودی آباد کاری کی حمایت سے متعلق تھا۔ گذشتہ برس کے آخر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی سے متعلق منصوبوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے فلسطین میں یہودی بستیوں کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کردی ہے۔ اب امریکا فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی نہیں سمجھتا۔ مائیک پومپیو کے اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نفتالی بینیٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے وسط میں الجملہ بازار میں ایک یہودی کالونی کے قیام کا اعلان کیا جس کا مقصد یہودی آباد کاری کو فلسطین کے اس تاریخی شہر کے اندر تک لانا تھا۔
الخلیل میں یہودی کالونی کے قیام کا مقصد اس تاریخی شہر میں یہودی آباد کاری کی راہ ہموار کرنا اور پہلے سے قائم یہودی کالونیوں کو تحفظ اور دوام فراہم کرنا تھا۔ اس وقت الخلیل شہر میں صہیونی ریاست نے 50 کالونیاں قائم کر رکھی ہیں جن کی آڑ میں فلسطینیوں کی قیمتی اراضی غصب کی گئی ہے۔ الخلیل میں نہ صرف یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں بلکہ ان میں دنیا بھر سے جمع کرکے فلسطین لائے گئے 3 ہزار یہودی بھی بسائے گئے ہیں۔
الخلیل میں یہودی آباد کاری کی تاریخ
الخلیل شہر میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسند کی تاریخ سنہ 1967ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے دوران فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے ناجائز فوجی قبضے سے شروع کوتی ہے۔ اسرائیلی فوج نے سنہ 1967ء میں الخلیل شہر قبضہ کیا مگر یہاں پر قبضے میں لی گئی عمارتوں کو یہودیوں آباد کاروں کے حوالے کرنے کا سلسلہ کچھ عرصے بعد ہوا۔ پہلے مرحلے میں 73 یہودی آباد کاروں کو الخلیل میں لا کر بسایا گیا۔ 10 مئی 1968ء کو دریائے خالد ہوٹل میں یہودیوں کو بسایا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے مسجد ابراہیمی کے علاقے تک توسیع کرنا شروع کردی اور متعدد تاریخی عمارتوں اور غاروں کو قبضے میں لے لیا۔
سنہ 1968ء کو اسرائیل نے الخلیل شہر میں ایک مذہبی اسکول قائم کیا تاکہ یہاں پر یہودیوں کو لانے اور انہیں بسانے کا موقع مل سکے۔ انہوں نے مسجد ابراہیمی کا ایک حصہ بھی یہودی آباد کاروں کی عبادت کے لیے مختص کردیا۔
ستمبر 1968ء کو اسرائیلی حکام نے یہودی آباد کاروں کو مسجد ابراہیمی کے سامنے یہودی آباد کاروں کو ایک کنیسہ قائم کرنے کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ مسجد ابراہیمی تک رسائی کے لیے ایک نیا راستہ بنایا گیا اور جگہ جگہ پر اسرائیلی فوج کی چوکیاں قائم کی گئیں۔
سنہ 197( کو اسرائیل نے پرانے الخلیل شہر کے قریب کریات اربع نامی ایک یہودی کالونی قائم کی جس کا مقصد الخلیل میں فلسطینی آبادی کے توازن کو بگاڑنا تھا۔ اس کالونی میں آٹھ ہزار یہودیوں کو منتقل کیا گیا اور یہاں پر ‘کاخ’ نامی ایک انتہا پسند یہودی تنظیم کو اپنے مراکز قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔
سنہ 1978ء میں یہودی آبادکاروں کے ایک گروپ نے’الدبویا’ نامی عمارت پرقبضہ کیا۔ یہ ایک تاریخی عمارت تھی جس کا شمار الخلیل شہر کے اہم مقامات میں ہوتا تھا۔ یہودی آباد کاروں نے اس بلڈنگ کو’بیت ھداسا’ کا نام دیا۔ سنہ 1983ء میں یہودی آباد کاروں نے الدبویا کے قریب ایک اور یہودی کالونی قائم کی جس کا نام ‘بیت رومانو’ رکھا گیا۔ یہودی آباد کاروں نے یہاں پرموجود اسامیہ بن المنقذ اسکول اور اس کی اراضی پرقبضہ کرلیا اور یہ دعویٰ کیا یہ اسکول یہودیوں کی متروکہ املاک میں شامل ہے۔
سنہ 1994ء کو اسرائیل نھے الخلیل شہر میں ‘ابراہام افینو’ نامی ایک نئی یہودی کالونی قائم کی۔ یہ کالونی الخلیل کے وسط میں تل الرمیدہ کے مقام پر قائم کی گئی۔ اس کے بعد بیت حسنوم اور بیت شنر سن نامی یہودی کالونیاں قائم کی گئیں۔
یہودیت کا تیزی کے ساتھ پھیلا سرطان
سنہ 2019ء میں الخلیل شہر میں یہودی بستیوں کی تعداد بڑھ کر 50 ہوگئی ہے۔ یہودی آباد کاروں نے الخلیل کی آخری عمارت جس پرغاصبانہ قبضہ کیا’ الرجبی خاندان کی عمارت ہے جس میں 600 یہودی آباد کاروں کو بسایا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر انتہا پسند یہودی ہیں۔ اس عمارت کی سیکیورٹی کے لیے 21 چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ یہ چوکیاں اور یہودی آبادکاروں کے لیے قائم کردہ کالونیاں فلسطینی آبادی کے لیے عذاب سے کم نہیں۔
الخلیل شہر اور اس کے اطراف میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں کے نام کچھ یوں ہیں "كريات أربع” ،”خارصينا” ،”منوح” ،”حجاي” ،”رمات يشاي” ،”الدبويا/بيت هداسا” ،”بيت رومانو” ،”ابرهام افينو” ،”تل جعبرة” و”جفعات هئفوت” ،”جفعات جال” ہیں۔
اس کے علاوہ الخلیل گورنری میں اسرائیلی ریاست کی طرف سے قائم کردہ کالونیوں میں "شمعون، وأصفر” ،”بني حيفر،”كرمئيل”، "سوسيا”، متساد يهودا، ،ماعون” ،”عتنئيل، ،شاني لفنا”،”شمعة، ،اشتموع، طنا عمريم” ،”اشكيلوت، سنسانا A سنسانا B،”نحال نجهوت، جفعات هبوستان”، "تيلم، وادورا” ترقوميا، "كرمي زور” شامل ہیں۔