فلسطین میں جنرل فیڈریشن برائے صنعت وحرکت کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ غزہ کی پٹی پراسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں نے علاقے کو معاشی تباہی کےدھانے پرپہنچا دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2019ء غزہ میں معاشی تباہی کے حوالے سے بدترین سال ہے۔ مسلسل جنگجوں، عالمی امداد کے فقدان، حکومت کی عدم توجہی اور دیگر مسائل کی وجہ سے غزہ میں 520 کارخانے اور فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سال 2019ء کے اختتام تک غزہ میں بند ہونے والے کارخانوں کی تعداد 520 تک پہنچ گئی ہے اور آنے والے عرصے میں مزید کارخانے بھی بند ہوسکتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے کارخانےمصر اور اردن منتقل ہوگئے ہیں۔ غزہ میں بے روزگاری اور غربت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ سماجی بہبود اور انسانی وسائل کا کوئی معقول ذریعہ نہیں۔
صنعت فیڈریشن کا کہنا ہے کہ غزہ میں صرف گارمنٹس کی صنعت نے 35 ہزار مقامی شہریوں کو روزگار فراہم کررکھا تھا اور اب صورت حال یہ ہے کہ صرف تین سے چار ہزار افراد اس شعبے سے منسلک ہیں اور باقی سب بے روزگار ہوچکے ہیں۔
اسی طرح فرنیچر سازی کے شعبے نے 30 ہزار شہریوں کو روزگار فراہم کررکھا تھا اور اب صرف تین ہزار افراد یہ کام کررہے ہیں اور باقی کارخانے بند ہونے کی سے بے روز گار ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اس وقت صنعتی سیکٹر پرصرف 10 سے 15 فی صد کام ہو رہا ہے اور گذشتہ برسوں کےدوران 10 سے 15 ہزار ملازمین کو بے روزگار کیا گیا۔