‘مجھے چھوڑ دو’ یہ الفاظ ایک ایسی فلسطینی دو شیزہ کے ہیں جسے حال ہی میں قابض صہیونی فوج نے اس کے گھر سے وحشیانہ چھاپے کے دوران حراست میں لیا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 21 سالہ شذی ماجد حسن کی گرفتاری کے لیے قابض فوج نے اس کے گھر پر چھاپ مارا، اسے پکڑا اور گھیسٹ کر گاڑی میں ڈالنے لگے۔ اس موقع پر شذی حسن بار بار چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ میں بے قصور ہوں مجھے چھوڑ دو’۔
یہ الفاظ آئے روز فلسطینی بچیوں کی زبانوں سے سنی جاتی رہی ہیں اور فلسطینی اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ جب اسے گاڑی میں ڈالا گیا تو اس نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ میرے لیے دعا کرنا۔ اس کے یہ الفاظ سن کرسب اہل خانہ رو دیئے۔ سابق اسیر عبدالفتاح بدیر نے شذی حسن کی گرفتاری کے وقت اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ انتہائی دکھی تھے اس کے ان الفاظ کو سن کر ہرایک رو دیا تھا۔
نفس کی قربانی
سابق اسیر رہ نما الشیخ جمال الطویل جو اسیرہ بشریٰ الطویل کے والد ہیں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو کچھ روز قبل اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی بچیاں صہیونی فوج کا دانستہ نشانہ ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ فلسطین میں قومی، عوامی، سرکاری اور سیاسی سطح پر فلسطینی دو شیزائوں کی گرفتاریوں کا معاملہ اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک معاملہ کہ قابض فوج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی بچیوں کو ٹارگٹ کررہا ہے۔ فلسطینی بچیوں کی گرفتاریاں سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف ہے۔ جن فلسطینی خاندانوں کی بچیاں اٹھا کر زندانوں میں ڈال دی جاتی ہیں، اس کا کرب وہی جانتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی فلسطینی بچیوں کی صہیونی فوج کے ہاتھوں مجرمانہ گرفتاریوں پر خاموش تماشائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکام نے مجھے میری بیٹی کے نام پر گرفتاری کے بدلے میں بلیک میل کیا گیا۔ مجھے کہا گیا کہ اگر یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بیٹی بشریٰ طویل کی گرفتاری کے عوض تمہیں گرفتار کرلیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے کہا مجھے گرفتارکرلو مگر میری بیٹی کو گرفتار نہ کرو۔ انہوں نے مجھے کئی سال ماہ قبل حراست میں لیا گیا۔
مجھے رہا کیا گیا تو رہائی کے چند روز بعد میری بیٹی کو حراست میں لے لیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ صہیونی فوج کی بھاری نفری نے ہمارے گھس میں گھس کر بشریٰ کو گرفتار کیا اور اس کی آنکھوں پر پٹی چڑھائی اور فوجی جیپ میں ڈال کر نامعلوم مقام پر لے گئے تھے۔
عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش
حراست میں لی گئی شذی حسن کےوالد الشیخ ماجد حسن نے کہا کہ ان کی بیٹی بیرزیت یونیورسٹی میں طالبہ ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ’فیس بک’ پر لکھا کہ جب مجھے پتا چلا کہ شذی کو اسرائیلی فوج اٹھا کر لے گئی ہے تو یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔ انہوں نے لکھا کہ صہیونی فوج کی طرف سے جب ان کی بیٹی کو حراست میں لیا گیا تو اسے قیدیوں کی جیکٹ پہننے کو کہا گیا۔ اس پروہ چیخ چیخ کرکہہ رہی تھی مجھے چھوڑو میں بے قصور ہوں، جب اسے گاڑی میں ڈال دیا گیا تواس نے ایک نظراپنے اہل خانہ پر ڈالی جن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس نے سب سے کہا کہ ‘میرے لیے دعا کرنا’۔
سابق اسیر الادیب ولید الھودلی کا کہنا ہے کہ صہیونی خفیہ ادارہ شاباک فلسطینی لڑکیوں کی گرفتاری کے ذریعے عوام کو خوف زدہ کرنا اور ہراساں کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کم سن بچوں اور بچیوں کی گرفتاریاں اس بات ثبوت ہیں کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے اور کم سن بچوں اور بچیوں کو بھی منظم ریاستی دہشت گردی اور نسل پرستی کا نشانہ بنا رہی ہے۔