وسط دسمبر 2019ء کو فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ جو 8 ماہ سے فلسطینی وزیراعظم ہیں نے دعویٰ کیا کہ غرب اردن میں آزادی اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور شہریوں کو بنیادی آزادیوں کی مکمل ضمانت دی گئی ہے۔ نیز یہ کہ کسی فلسطینی کو سیاسی بنیادوں پر حراست میں نہیں لیا گیا’۔
محمد اشتیہ کا یہ بیان اپنی جگہ مگر زمینی حقیقت ان کے برعکس ہے۔ غرب اردن کے تمام شہروں، قصبات، اضلاع اور کالونیوں میں بسنے والےفلسطینیوں پر یہ ضرب المثل صادق آتی ہےکہ ‘ہم آٹا پیسنے کی آواز تو سن رہے ہیں مگرہمیں آٹا دکھائی نہیں دیتا’۔
مبصرین اور انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ 2019ء ماضی کے برسوں سے انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف رہا ہے۔شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو کھلے عام پامال کیا جاتا رہا ہے۔
پچھلے تین ماہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انسانی حقوق کی 900 بار پامالیوں کے واقعات سامنے آئے۔ سیاسی اسیران کے اہل خانہ مشتمل کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے شہریوں کی سیاست بنیادوں پر گرفتاریوں، طبی، گھروں میں نظر بندی، گھروں پر چھاپے، ورکنگ مقامات پرچھاپے، فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اور اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ تعاون جیسے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔
گرفتاریوں اور تشدد میں اضافہ
تجزیہ نگار مہند کراجہ 2019ء فلسطینی اسیران کی کمیٹی میں شامل ہیں۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اوردیگرسیکیورٹی اداروں کی طرف ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ سیاسی بنیادوں پر فلسطینیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ پورا سال جاری رہا۔ دوران حراست فلسطینیوں پر تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مہند کراجہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں قید کیے گئے فلسطینیوں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے جلادوں کے قیدیوں پر تشدد کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ آلابشیر اور اسیر مومن نزال اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
مہند کراجہ کا کہنا ہے کہ 2019ء میں فلسطینی اتھارٹی پولیس کے ہاتھوں کم سن بچوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
انسانی حقوق کی پامالیاں
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ کراجہ نے کہا کہ سال 2019ء کے دوران فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سلسلہ اپنے عروج پر رہا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، عدالتوں میں پیشی کے موقع پر قیدیوں کے وکلاء کو پیش ہونے سے روکنا، اسیران اور ان کے اہل خانہ کے درمیان ملاقات پرپابندی اور کئی دوسرے حربے استعمال کرنا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عدالتیں قیدیوں کی رہائی کے احکامات دیتی ہیں مگر رام اللہ اتھارٹی کے نام نہاد ادارے ان احکامات کو نظرانداز کررہے ہیں۔ رام اللہ اتھارٹی کے اہلکاروں کی طرف سے خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ سھیٰ جبارہ اور آلا بشیر اس کی تازہ مثالیں ہیں۔
مہند کراجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آزادی اظہار رائے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں اور ان پر تشدد بھی معمول بن چکا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی کرپشن بے نقاب کرنے والے فلسطینی صحافیوں کو انتقامی حربوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔