حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی حمایت پرمبنی بیان کو سال 2019ء کے فلسطین کے حوالے سے اہم ترین واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ امریکی تاریخ میں یہ ایک غیر مسبوق بیان اور فیصلہ ہے۔ گوکہ امریکا ماضی میں بھی در پردہ فلسطین میں یہود آباد کاری کا حامل رہا ہے مگر امریکا کی اعلانیہ پالیسی یہ رہی ہے کہ 1967ء کی جنگ کے بعد فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حامی رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 18 نومبر 2019ء کو ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں میں قائم کی گئی یہودی بستیوں کو خلاف قانون نہیں سمجھتے اور مزید تعمیرات کے لیے اسرائیل کی مخالفت نہیں کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کے اس متنازع اور اشتعال انگیز بیان نے صہیونی ریاست کو فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے لیے کلین چٹ دے دی۔ گویا امریکا القدس اور غرب اردن میں قائم کی گئی 503 یہودی کالونیوں کو آئینی اور قانونی قرار دیتا ہے۔ ان کالونیوں میں 6 لاکھ 53 ہزار 621 یہودی آباد ہیں۔ ان میں سے 474 یہودی کالونیاں غرب اردن اور 29 بیت المقدس میں قائم کی گئی ہیں۔
تعمیرات سے فضاء زیادہ خطرناک
مقبوضہ مغربی کنارے کا 5844 مربع کلو میٹر اور بیت المقدس میں 196 مربع کلومیٹر کا علاقہ ان یہودی کالونیوں کے ذریعے غصب کیا گیا ہے۔ مستقبل میں 540 مر کلو میٹر غرب اردن اور 343 مربع کلو میٹر القدس میں یہودی کالونیوں کے لیے غصب کیا جائے گا۔
ایسے لگتا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے زمین پرتعمیرات کی نسبت فضاء زیادہ خطرناک ہے۔ غرب اردن کے 11 فی صد رقبے پر یہودی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں جب کہ 18 اعشاریہ 5 فی صد رقبے پر فوجی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ جب کہ غرب اردن میں 12 فی صد رقبہ نسلی دیوار کی نذر کردیا گیا ہے۔
نام نہاد اوسلو معاہدے کے تحت غرب اردن کا 60 فی صد رقبہ انتظامی اور عسکری طور پرصہیونی فوج کے حوالے کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ سیکٹر’سی’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صہیونی ریاست نے غرب اردن میں سیرگاہوں، پارکوں اور دیگر تفریحی مقاصد کے لیے 48 مقامات مختص کیے گئے ہیں۔ یہ کل رقبے کے 12 اعشاریہ چار فی صد ہیں۔
مسلسل توسیع
صہیونی حکومت کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں تعمیراتی منصوبوں کے بیانات کو چھپایا جاتا ہے تاکہ صہیونی ریاست کو یہودی آباد کاری کے حوالے سے عالمی برادری اور انسانی حقوق کے گروپوں کی تنقید سے بچایا جا سکے۔
تاہم یہودی آباد کاری کے حوالے سے سامنے آنے والے اعدادو شمار یہودی آباد کاروں کی تعداد سے کوئی میل نہیں کھاتے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کی کوئی مطابقت موجود ہے۔
حالیہ عرصے کے دوران اسرائیلی ریاست کی طرف سے بیرون ملک سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کے رحجان میں غیرمعمولی تیزی آئی ہے۔
سال 2019ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران 5800 مکانات کی تعمیر پرکام شروع کیا گیا، ان میں مشرقی بیت المقدس 1153 گھروں کی تعمیر کی منظوری دی گئی یا ان کی تعمیر شروع کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ غرب اردن میں 4 ہزار 646 گھروں کی تعمیر مکمل کی گئی۔
دوسری طرف اسرائیلی اخبار’یسرائیل ھیوم’ کی رپورٹ کے مطابق سال 2019ء کے دوران غرب اردن میں 827 فلیٹس تعمیر کیے گئے۔ گذشتہ سال کی نسبت رواں سال 27 فی صد کمی آئی ہے۔ سال 2018ء کے دوران 2227 فلیٹس تعمیر کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران یہودی آبادکاروں کے لیے 19 ہزار مکانات تعمیر کیے گئے۔ سنہ 2016ء کے دوران 3211 اور 2017ء کے دوران 1697 مکانات تعمیر کرکے ان میں یہودیوں کو بسایا گیا۔