شنبه 03/می/2025

‘صہیونی فوجی نے پہلے دھمکی دی پھر آنکھ پر گولی ماری’

جمعہ 13-دسمبر-2019

‘بغیر آواز کے گولی آئی اور اس نے میری آنکھ تلف کردی۔ مجھے اس وقت سخت دکھ اور محرومی کا احساس ہوا جب ڈاکٹروں نے کہا کہ میں آنکھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہوگئی ہے۔ قابض اسرائیلی نشانہ باز فوجی نے چھ فاصلے پر کھڑ ہو کردھمکی دی کہ وہ میری آنکھ پرگولی مارے گا اور اگلےلمحے اس نے میری آنکھ پر گولی مار دی’۔

یہ الفاظ 20 سالہ سماجی کارکن می ابو رویضہ کے ہیں جسے قابض فوجیوں نے وسطی غزہ میں سرحدی باڑ سے دور کھڑ ہو کراحتجاج کےدوران گولیاں مار کر زخمی کردیا تھا۔ می کو خون میں لت پت اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا میں آج سے ایک آنکھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی ہوں۔

می ابو رویضہ گذشتہ جمعہ کے روز مشرقی البریج پناہ گزین کیمپ کے قریب ہی ایک احتجاجی مظاہرے میں موجود تھی جب اسرائیلی فوج کے ایک ماہر نشانہ باز نے اسے باقاعدہ دھمکی دی کہ وہ اس کی آنکھ میں گولی مارے گا۔ اس کے بعد اس سفاک درندے نے ایسا ہی کیا اور ایک معصوم اور غیرمسلح لڑکی کی آنکھ پرگولی مار کر اسے ایک آنکھ سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا۔

می ابو رویضہ کو اسپتال منتقل کیا گیا۔ پہلے اسے فیلڈ اسپتال لے جایا گیا۔اس کے بعد اسے شہداء الاقصیٰ اور وہاں سے غزہ میں آنکھوں کے امراض کے لیے مختص اسپتال لے جایا گیا۔

خیال رہے کہ صہیونی فوج فلسطینی مظاہرین کے خلاف ایسے مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرتی جن کا استعمال عالمی سطح پر ممنوع ہے۔ غزہ میں گذشتہ دو سال سے جاری حق واپسی ریلیوں کے پرامن فلسطینی مظاہرین کے خلاف ایسے ہی مہلک ہتھیار استعمال کیے جاتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں۔

دھمکی اور اس اس پرعمل درآمد

می ابو رویضہ کو جب گولی لگی گو اس کے چہرے سے خون کا فورا پھوٹ پڑا۔ اول اول تو یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ اس کے چہرے کا کون کون سا حصہ زخمی ہوا ہے۔ نہ صرف اس کا چہرہ بلکہ اس کا کوفیہ گریبان اور کپڑے تک خون سے تر ہوچکے تھے۔

اگلے روز جب می کو آنکھوں کے اسپتال منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کی دائیں آنکھ تلف ہوچکی ہے۔ آگولی سیدھی آنکھ پر لگی تھی جس نے آنکھ کو مکمل طور پرکچل دیا تھا۔

بستر علالت پرزیرعلاج می نے بتایا کہ میں حق واپسی ریلیوں میں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتی رہی ہوں اور پہلے بھی تین بار معمولی زخمی ہوچکی ہوں۔ گذشتہ جمعہ کو ہم لوگ سرحدی باڑ کے قریب احتجاجی جلوس نکالے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر اسرائیلی فوج کی ایک گاڑی کھڑی تھی اور اس کے ٹیک لگائے ایک اسرائیلی فوجی بندوق سے مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کررہا تھا۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ام رویضہ کا کہنا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اسرائیلی فوجی اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرکے مجھے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ میری آنکھ پر گولی مارنا چاہتا ہے۔ میں پرسکون کھڑی رہی۔ اس کے بعد اس نے آنسوگیس کا ایک شیل میری طرف داغا مگر وہ مجھے نہ لگا۔ اس کے ایک منٹ کے بعد میری آنکھ میں گولی لگی اور میں سیدھی زمین پر گر گئی۔ میرا چہرہ خون سے تر ہوگیا اور میں شدید تکلیف سے دوچار تھی۔

اپیل اور حوصلے بلند

می ابو رویضہ نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میرے علاج کے لیے غزہ کے اسپتال کو تمام ضروری سامان اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ آنکھ کے تلف ہونے کے بعد میرے سرمیں شدید تکلیف ہے اور میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔

می ابو رویضہ کو ایک فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ شدید زخمی ہونے اورآنکھ کے تلف ہونے کے باوجود پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے حوصلے مسلسل بلند ہیں۔

منظم نشانہ

غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والی می ابو رویضہ کی سہیلی 32 سالہ جاکلین شحادہ جو خود بھی زخمی ہوئیں اسپتال میں می کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت گذار رہی ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے شحادہ نے کہا کہ جب می کو گولی لگی تو وہ مجھ سے کوئی تیس میٹر دور کھڑی تھی۔ اسے گولی لگتے دیکھتے ہی ہم سب اس کی طرف لپکے۔ امدادی کارکن بھی اس کی طرف آئے اور اسے زمین سے اٹھایا۔

شحادہ نومبر 2018ء کو اسی علاقے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہوگئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ غزہ میں حق واپسی کے لیے پرامن فلسطینی ریلیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور شہریوں کومنظم طریقے سے نشانہ بنا کر گولیاں ماری جاتی ہیں۔

اس نے بتایا کہ ایک سال قبل اسی طرح اسرائیلی فوجی نے اس کی آنکھ پر گولی ماری اور اس کی ایک آنکھ 90 فی صد تلف ہوچکی ہے۔

ایک دوسری زخمی صابرین العرمی کا کہنا ہے کہ میں بھی می ابو رویضہ کے قریب تھی جب اسے گولی لگی۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ اسرائیلی فوجی فلسطینی مظاہرین کو بلا تفریق منظم طریقے سے باقاعدہ نشانہ بنا کر فائرنگ کرتے ہیں۔ تاکہ ان کی فائرنگ کا نشانہ بنے والے یا تو شہید ہو جائیں یا کم سے کم کسی جسمانی اعضاء بالخصوص آنکھوں سے محروم ہوجائیں۔

مختصر لنک:

کاپی