بے گناہ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے خوفناک صہیونی حربے کے پس پردہ کئی محرکات ہیں۔ فلسطینی شہریوں پر دہشت گردی کے جعلی مقدمات قائم کرنا اور ان جعلی اورمن گھڑت الزامات کی آڑ میں انہیں قید و بند میں ڈالنا نہ صرف پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے بلکہ فلسطینیوں کا قیمتی وقت جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے برباد کرنا بھی اس حربے کا حصہ ہے۔
اس وقت بھی سات ہزار کے قریب فلسطینی بچے، جواں اور مائیں، بہنیں بیٹیاں دو درجن اسرائیلی عقوبت خانوں میں گل سڑ رہےہیں۔ فلسطینیوں کو پابند سلاسل کرنے کے جرائم میں ایک جرم انتظامی قید کا ہے۔ اس نام نہاد اور کالے قانون کے ذریعے کسی بھی فلسطینی کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا جاتا ہے اور اسے ابتدائی میں تین سے چھ ماہ کی قابل توسیع قید کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد قید وبند کا یہ لا متناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور انتظامی قیدیوں کی مدت حراست میں باربار کی توسیع کی جاتی ہے۔ یوں فلسطینی نوجوانوں اور طلباء کا انتہائی قیمتی وقت برباد ہوجاتا ہے۔ بہت سے ایسے واقعات ہیں جن میں دیکھا گیا ہے کہ فلسطینی طلباء کو امتحانات سے قبل حراست میں لیا جاتا ہے اور امتحانات ختم ہونے کے بعد انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوران حراست ان کے جذبات اور عزائم کی کمر توڑنے کے لیے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ اس طرح فلسطینی اسیران کے دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اور مہینے برسوں میں بدلتے جاتے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیلی جیل سے رہائی پانے والے اسیر محمد منیٰ نے ‘اسیران میڈیا آفس’ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا قید کا عرصہ ساڑھے سات سال پرمشتمل ہے۔ اس عرصے میں چار سال انتظامی قید کے ہیں۔ میں اس باب میں اکیلا نہیں ہوں، سیکڑوں فلسطینیوں کو انتظامی قید میں ڈال کران کا قیمتی وقت ضائع کیا جاتا ہے حالانکہ ان پر کوئی الزام تک نہیں ہوتا اور نہ ان پر کسی بھی اسرائیل مخالف سرگرمیں پیش پیش ہونے کا کوئی شبہ ہوتا ہے۔
کٹھن مرحلہ
محمد منیٰ کا کہنا تھا کہ گرفتاری کا عرصہ انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ نہ صرف اسیر کے لیے بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی۔ جیلوں میں قید کرنا زندوں کو قبر میں گاڑھنے کے مترادف ہے۔ فلسطینیوں کو جبری طور پرعقوبت خانوں میں ڈالا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی پیشہ وارنہ، خاندانہ، سماجی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ فلسطینیوں کو قید کرنے کا مقصد ان پر اور ان کے اہل خانہ عرصہ حیات تنگ کرنے کے ساتھ ان کے جذبہ آزادی کو کچلنا، انہیں بیماریوں کا شکار کرنا اور تھکا دینا ہے تاکہ فلسطینی رہائی کے بعد آزادی کے لیے جدو جہد میں شامل نہ ہوسکیں بلکہ وہ معاشرے پر بوجھ بن جائیں اور عضو معطل ہو کر رہ جائیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں محمد منیٰ کا کہنا تھا کہ فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے مگر انہیں اپنے حق میں بولنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ انہیں اسرائیل کے عادی مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا مجھے اسرائیل کے خلاف اشتعال پھیلانے کے الزام میں بار بار گرفتار کیا گیا مگر میرا عزم آزادی گرفتاریوں سے کمزور نہیں ہوگا۔ اگر میرے قلم سے فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے لکھے جانے والی تحریر اسرائیلی ریاست کے خلاف نفرت پر اکسانے کا باعث بنتی ہے تو میں یہ جہاد اور بھی زیادہ شدت سے کروں گا۔
فلسطینی صحافی اور سماجی کارکن نے بتایا کہ صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار اور تفتیش کار مجھے بار بار کہتے کہ میں اپنا صحافتی پیشہ ترک کردوں۔ مگر جب میں ان سے پوچھتا کہ آپ بتائیں مجھے کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں لکھنا چاہیے تو وہ کوئی جواب نہ دیتے۔
انتظار کی مصیبت
محمد منیٰ کا کہنا ہے کہ انتظامی قید عام قید سے زیادہ صدمے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس کا پورا عرصہ انتظار میں گذرتا ہے۔ اگر کسی قیدی کو چھ ماہ کی سزا دی گئی ہے تو وہ چھ ماہ کے بعد رہائی کی امید رکھتا ہے مگر چھ ماہ ختم ہونے کے بعد مزید چھ مہینوں کی قید سنا دی جاتی ہے۔ یہ صہیونی ریاست اور انٹیلی جنس اداروں کی ایک چال ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کے حوصلے پست کرنا اور ان کے عزائم کو شکست دینا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صہیونی حکام کی طرف سے فلسطینیوں کو عام قید کی سزا دی جاتی ہے تو وہ ختم ہونے کے بعد انتظامی قید کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انتظامی قید کی سزا کا عرصہ دوسری سزا کے عرصے سے بڑھ جاتا ہے۔
بھوک ہڑتال
سابق اسیر محمد منیٰ نے کہا کہ انتظامی قیدیوں کے پاس اپنی رہائی کے لیے بھوک ہڑتال کا ایک خطرناک راستہ ہے۔ سنہ 2014ء میں انتظامی قیدیوں نے 63 دن مسلسل اجتماعی بھوک ہڑتال کی۔ میں نے بھی اس بھوک ہڑتال میں حصہ لیا۔ اس بھوک ہڑتال کے بعد میری رہائی کا فیصلہ کیا گیا جب کہ میں اس سے قبل ساڑھے پانچ سال قید کی سزا کاٹ چکا تھا۔
ایک صحافی کے طور پر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد منیٰ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافی کسی بھی معاشرے کا اہم رکن ہوتا ہے جو خبروں کے ذریعے معاشرے میں پائے جانے والے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کو تربیت دینی چاہیے کہ صہیونی زندانوں میں جانے کے بعد وہ کیسے خبریں میڈیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ اسی طرح صحافتی حلقوں کو چاہیے کہ وہ اسیران کےمعاملے اور ان کے مسائل وآلام کو زیادہ سے زیادہ کوریج دیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید فلسطینیوں کی ترجمانی کی جاسکے اور ان کی آواز پہنچائے جاسکے۔