جمعرات کے روز قابض صہیونی فوج نے غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں صرہ کے مقام پر ایک فلسطینی شہری عامر شحادہ کے گھر پر چھاپے کےدوران 17 ہزار شیکل کی نقد رقم اور زیورات لوٹ لینے کے ساتھ ایک دوسرے فلسطینی زکریا الترابی کےگھر سے 1200 شیکل کی رقم لوٹ لی۔
غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے یعبد قصبے کے فلسطینی شہری کی طرف سے شکار کی گئی کہ قابض فوج نے اس کی اس کی اہلیہ کا زیور چھین لیا اور اس کی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔
فلسطینی شہری عبداللہ ابو الترکی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی لوٹی گئی رقم صہیونی حکام سے واپس لینے کی ہرممکن کوشش کی مگر اسے رقم واپس نہیں دی گئی۔ صہیونی دشمن یہ بھونڈا الزام عاید کرتے ہیں کہ ابو ترکی ‘دہشت گردی’ کی معاونت کے لیے رقم استعمال کررہے تھے اور ان کے خلاف اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے تحقیقات کررہےہیں۔
فلسطینی قانون دان طارق الحاج نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قابض صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کی املاک کی لوٹ مار کے لیے باقاعدہ قانون سازی کررکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ فلسطینی لوٹی گئی رقوم کے حصول کے لیے اسرائیلی سپریم کورٹ سے رجوع کرتے تھے مگر اب صہیونی حکام’دہشت گردی’ کی معاونت کا الزام عاید کرکے صہیونی عدالت کو فلسطینیوں کی رقوم اور زیورات ان کے حوالے کرنے کے فیصلے سے روک دیتے ہیں۔
املاک پرقبضے کے مختلف طریقے
مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام کی طرف سے ان سے لوٹ مار کے کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے گھروں میں گھس کر نہ صرف نقدی اور زیورات قبضے میں لیے جاتے ہیں بلکہ فوجی چوکیوں سے گذرنے والی فلسطینیوں کی گاڑیاں بھی ان سے چھینی جا رہی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات قابض صہیونی حکام فلسطینیوں کے گھروں میں موجود قیمتی فرنیچر تک اٹھا کرلے جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص اس کی واپسی کا مطالبہ کرے تو اس پر دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دے کر اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہریوں کی دسیوں گاڑیوں کو صہیونی حکام قبضے میں لے چکے ہیں مگر فلسطینی ان کی واپسی میں ناکام ہیں۔
سماجی کارکن عدنان حمارشہ کا کہنا ہے کہ وہ جسمانی طور پرمعذور ہیں گاڑی ہی کے ذریعے وہ اپنے گھر سے دفتر تک جاسکتےہیں۔ قابض فوج نے ان سے ان کہ گاڑی چھین لی اور جب واپسی کی کوشش کی تو صہیونی حکام نے اتنی بھاری رقم مانگی جسے وہ ادا کرنےسے قاصر ہیں۔
الحاج کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام فلسطینیوں کی گاڑیاں کئی کئی سال تک ضبط کیے رکھتے ہیں اور وہ گاڑیاں پڑی پڑی ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے فلسطینیوں سے خطیر رقم مانگی جاتی ہے اور بعض اوقات وہ رقم اڑی کی قیمت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔