کہتے ہیں کہ مسلمان آج کے دور میں سائنس کے میدان میں پیچھے ہیں مگر عرب ملک تیونس کے ایک کم عمرطالب علم نے ایک سو سال سے سائنسدانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ایک مسئلہ حل کرکے انہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین ایک سو سال سے یہ راز جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ آیا گیس کے بلبلے تنگ پائپوں سے گذرنے کے بجائے ان میں کیوں پھنس جاتےہیں۔ ایک طالب علم وسیم الذادی نے سائنسدانوں کی یہ مشکل حل کردی۔
رپورٹ کے مطابق سوئٹزرلینڈ کے لوزان فیڈرل اسکول آف اپلائیڈ آرٹس میں زیر تعلیم تیونس کے ایک طالب علم نے سائنس کا ایک اہم سربرستہ راز پالیا۔
تیونسی میڈیا کے مطابق طالب علم وسیم الذوادی نے دریافت کیا کہ گیس کے بلبلوں تنگ پائپوں میں کیوں کر پھنس جاتےہیں۔
طالب علم نے بلبلوں کے گرد مائع کی ایک بہت ہی پتلی پٹی کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ یہ پٹی گیس کے بلبلوں کو پائپوں سے نکلنے سے روکتی ہے۔ اس نے دریافت کیا کہ بلبلے پھنستے نہیں ہیں بلکہ بہت آہستہ سے حرکت کرتے ہیں۔
ماہرین طبیعیات نے تقریبا ایک صدی قبل اس واقعے کا مشاہدہ کیا ، لیکن وہ اس کی کوئی وضاحت سامنے نہیں لاسکے ، کیوں کہ نظریہ کا خیال تھا کہ بلبلوں کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا چاہیئے جب تک کہ مائع حرکت میں نہ آجائے۔
الذوادی کی تحقیق جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے میں پہلی بار پچھلے نظریات کی جانچ کے لیے ایک تجرباتی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔
معاملے کا پتہ لگانے کے طریقہ کار میں روشنی کو کسی تنگ ٹیوب کے اندر ہوا کے بلبلے میں داخل کرنا اور روشنی کی عکاسی کی شدت کا تجزیہ کرنا شامل تھا۔
الذوادی نے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر بلبلے پر گرمی کا اثر ہوتا ہے توگرمی کو ختم کرنے کے بعد اسے اصل شکل میں واپس لایا جاسکتا ہے۔
پیمائش سے پتہ چلتا ہے کہ بلبلے واقعت حرکت کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ حرکت اتنا آہستہ ہوتی ہے کہ انسان آنکھ اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتی۔