جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل میں فلسطینی مزدوروں کی بڑھتی اموات کا ذمہ دار کون؟

منگل 3-دسمبر-2019

اٹھائیس نومبر 2019ء کو اسرائیلی فوج نے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقے کے قریب الخلیل شہرکے جنوب میں ‘ترقومیا’ چوکی پر فلسطینی شہری محمد نواجعہ  کو اسرائیلی فوج کی ایک جیپ نے دانستہ طور پرروند ڈالا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ نواجعہ کی شہادت سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی مزدوروں کی شہادتوں کے بڑھتے واقعات کی ایک نئی کڑی ہے۔

اندرون فلسطین میں فلسطینیوں کی شہادتوں کے بڑھتے واقعات کئی شکلوں میں ہمارے سامنے ہیں۔ کبھی کسی فلسطینی کو اسرائیلی فوج گاڑیوں تلے روند کر شہید کردیتی ہے۔ کسی کو غیرقانونی طورپر اسرائیل میں داخلے پر تعاقب کرتے ہوئے شہید کیا جاتا ہے اور کئی فلسطینی اندرون فلسطین میں نامناسب رہائشی سہولیات کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

ممکن ہے چند روز کے بعد سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد درجنوں تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ رواں سال کے دوران تعمیراتی شعبے میں کام کے دوران پراسرار طریقے سے 30 فلسطینی مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

فلسطینی مزدور یونین کی طرف سے متعدد بار بین الاقوامی لیبر اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والے فلسطینی مزدوروں کے حالات پر نظر رکھے۔

متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ

فلسطین لیبریونین کے سیکرٹری جنرل شاھر سعد کا کہنا ہے کہ اندرون فلسطین میں محنت مزدوری کرنے والے 40 فی صد فلسطینی غیر منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ایجنٹ فلسطینیوں مزدوروں کےحقوق کو پامال کررہے ہیں۔ سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں داخلے کے اجازت نامے دینے والے ایجنٹ کڑی شرائط کے تحت فلسطینیوں کو راہ داریاں دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کو اجازت نامے کے حصول میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ فلسطینیوں کو اجازت ناموں کے حصول کے عوض بھارتی رقوم رشوت میں دینا پڑتی ہے۔

شاھر کا کہنا ہے کہ اندرون فلسطین میں 80 فلسطینی جاں بحق ہونے والے فلسطینی مزدوروں میں وہ لوگ شامل ہیں جو تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

فلسطینیوں سے جمع کردہ رقوم کہاں صرف کی جائے گی؟

ایک مزدور ولید جرادات نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ الجلمہ گذرگاہ سے بغیر اجازت اندرون فلسطین میں داخل ہوا۔ وہاں جانے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ بغیر اجازت آنے والوں کو صہیونی فوج کتنے بھاری جرمانے کرتی ہے۔

صہیونی ریاست کا دعویٰ ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی باقاعدگی کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

اخبار’ہارٹز’ نے جون 2019ء کو جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی وزارت خزانہ، ہائوسنگ اتھارٹی اور ایمی گریشن حکام فلسطینی مزدوروں سے 30 کروڑ 80 لاکھ شیکل کی رقم جمع کرتی ہے۔ یہ رقم ان سے سوشل سیکیورٹی کی مد میں لی جاتی ہے۔ حکومت اس رقم کو غرب اردن اور اندرون فلسطین کے درمیان قائم کردہ چوکیوں کی تجدید اور ان پر جدید آلات لگانے پر غور کررہی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی