جمعه 15/نوامبر/2024

‘منشیات’ ۔۔ فلسطینی نسل تباہ کرنے خوفناک صہیونی سازش

ہفتہ 30-نومبر-2019

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور دوسرے فلسطینی علاقوں میں تیزی کے ساتھ پھیلتے منشیات کے ناسور کے پیچھے صہیونی ریاست کی ایک منظم سازش کار فرما ہے۔

فلسطینیوں کومنشیات کی لت کا شکار کرنے اور ان کے دماغ اور اعصاب کو مفلوج کرنے کے لیے صہیونی ریاست منشیات کو ایک حربے کے طورپر استعمال کرتی ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اس وقت غرب اردن کے علاقے میں منشیات کا دھندہ عروج پر ہے اور فلسطینیوں کی نئی نسل کو تباہ کرنے کے لیے اس مکروہ حربے کو کھلے عام اختیار کیا گیا ہے۔ چند روز قبل فلسطینی انسداد منشیات پولیس نے غرب اردن کے علاقے اریحا میں ایک رہائشی مکان پر چھاپہ مار کر وہاں سے تین ٹن منشیات قبضے میں لی۔

غرب اردن میں انسداد منشیات حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران غرب اردن میں منشیات کے دھندے میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2018ء میں غرب اردن کے علاقوں میں منشیات کے جرائم میں 33 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔

صہیونی ریاست کا مکروہ ایجنڈا

فلسطینی وزارت صحت کے زیرانتظام نیشنل انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ  غرب اردن میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ ہے۔ منشیات کے دھندے اور اس کے استعمال میں تیزی کے ساتھ خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران 26 ہزار 500 افراد منشیات کی لت کا شکار ہوئے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ فلسطینی خواتین میں بھی منشیات کی لعنت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ غرب اردن میں 16 ہزار 453 منشیات کے عادی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد 10 ہزار 47 ہے۔ ان میں 1118 افراد نشے کا انجیکشن لگواتے ہیں۔ سب سے زیادہ حشیش اور بھنگ پھیل رہی ہے۔ اس کے علاوہ ماریگوانا، ٹراماڈول، ہائیڈرو اور دیگر خوفناک منشیات شامل ہیں۔

ایک مقامی سماجی تنظیم جو منشیات کے انسداد کے لیے کام کررہی ہے کے ڈائریکٹر ماجد علوش کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد مختلف ہے۔ منشیات کے پیچھے صہیونی ریاست کا ایجنڈا ہے۔

رام اللہ میں پولیس ترجمان لوئی ارزیقات کا کہنا ہے کہ فلسطینی اراضی میں منشیات کے تیزی کے ساتھ پھیلائو کے پیچھے صہیونی ریاست کے منشیات کے تاجرہیں۔ یہ ایجنٹ غرب اردن کے سیکٹر ‘سی’ میں زیادہ سرگرم ہیں۔

غیر نافذ قانون

فلسطینی علاقوں میں منشیات کی لت کی روک تھام کے لیے قانون کی موجودگی کا سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ ماجد علوش کا کہنا ہے کہ فلسطین میں آئین موجود ہے مگر اس کا نفاذ نہیں، سنہ 2015ء کو مجریہ آرٹیکل 18 میں منشیات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کی سفارش کی گئی تھی مگر اس پرعمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ منشیات کے دھندے میں ملوث افراد کو عمر قید کی سزا اور قید با مشقت کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں مگر پولیس کی طرف سے منشیات کے کیسز کو اتنا کمزور کیا جاتا ہے کہ ملزم پھر چھوٹ جاتے ہیں۔

علوش کا کہنا ہے کہ اوسلو معاہدے میں منشیات کے تاجروں کو تحفظ دیا گیا۔ اسرائیلی ایسے عناصر کو زرد کارڈ جاری کرتا ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو ان کے تعاقب سے روکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی