‘میری زندگی کے لمحات پورے ہونے کو ہیں۔ میری حیات مستعار کے لیل ونہار پورے ہوچکے ہیں۔ میں اس وقت بہ ظاہر ایک اسپتال میں ہوں مگرمیرے ہاتھوں میں ہتھکڑی اور پائوں میں بیڑیاں ہیں۔ جیلروں کی پوری کوشش اور خواہش کہ قیدی ان کے سامنے زندگی کی بازی ہار دیں۔ وہ ہماری تکالیف اور مصائب پرلذت اور لطف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ہر زندہ ضمیر انسان سے مخاطب ہوں۔ میں اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جی رہا ہوں۔ میری خواہش اورآخری تمنا ہے کہ میں اپنی ماں کی گود میں جان جان آفریں کے سپرد کروں۔ میری موت کے وقت میرے اہل خانہ، عزیز اقارب اور دوست احباب میرے پاس ہوں اور میں اپنے پیاروں کی موجودگی میں اپنی جان دوں’۔
یہ الفاظ فلسطینی اسیر سامی ابو دیاک کے ہیں۔ سامی ابو دیاک غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے سیلہ الظھر کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تین روز قبل وہ صہیونی زندانوں میں کینسر کے باعث دم توڑ گئے۔ شہادت سے ایک روز قبل ان کے اسیر بھائی جو خود بھی عمر قید کے سزا یافتہ ہیں کے ساتھ سامی ابو دیاک کی ملاقات کرائی گئی۔
وفات سے دو روز قبل ان کی ماں اور بعض دوسرے اقارب کی بھی ابو دیاک کے ساتھ ملاقات کرائی گئی۔ یہ ان کی ابو دیاک کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔
ابو دیاک کا خاندان اپنے ایک فرد کے بچھڑجانے سے تو صدمے سے دوچار ہے مگراُنہیں فلسطینی اتھارٹی، فلسطین کے سرکاری اداروں، انسانی حقوق کے گروپوں اور بین الاقوامی برادری کے کردار پربھی گہرا دکھ اور افسوس ہے۔
شہید ابو دیاک کے چچا زاد عبداللہ ابو دیاک نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین کے سرکاری اداروں کا ابو دیاک کے حوالے سے کردار شرمناک ہے۔ ابو دیاک کی اسیری کے کئی سال کے دوران اس کی رہائی کے لیے صہیونی ریاست پر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا۔
نہ ختم ہونے والے مصائب
سامی ابو دیاک کو اسرائیلی فوج نے 2002ء نے حفاظتی دیوار نامی کارروائی کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ اسی الزام میں اس پرمقدمہ چلایا گیا۔ اس کیس میں ابو دیاک کو تین بار عمر قید اور 30 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے تین سال کے بعد 13 مئی 2005ء کو قابض فوج نے ابو دیاک کے بھائی سامر کو حراست میں لے لیا۔ اسے ایک بارعمر قید اور 25 سال اضافی قید کی سزا سنائی۔
سامرابو دیاک نے اپنے بھائی سامی کی شہادت سے دو روز قبل ملاقات کی۔ یہ اس کی الوداعی ملاقات ثابت ہوئی۔
شہید سامی ابو دیاک کے چچا زاد راغب ابو دیاک نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سامی ابو دیاک نے صہیونی حکام سے درخواست کی تھی کہ اس کی بیماری میں اس کےبھائی سامرکو اس کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ مگر قابض فوج نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔اس نے کہا کہ مجھے آخری وقت میں اپنی ماں کے پاس بھیج دیا جائے۔ مگر اس کی یہ خواہش بھی پوری نہیں کی گئی۔
سامی ابو دیاک پہلے فلسطینی نہیں جو صہیونی زندانوں میں دوران حراست شہید ہوئے ہیں۔ رواں سال دو دیگر فلسطینی بسام السائح اور فارس بارود بھی صہیونی زندانوں میں بیماری کی حالت میں مجرمانہ غفلت اور لاعلاج رہنے کی وجہ سے محروم رہے۔