اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کے خاتمے کے لیے "دو ریاستی حل” "واحد قابل عمل اور حقیقت پسندانہ راستہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس کا متبادل "غیر مساوی قوانین کی حامل ایک نسل پرست ریاست ہوسکتی ہے جس میں بسنے والی ایک قوم کو زیادہ حقوق اور دوسری اقوام کو محروم رکھا جائے گا۔
اردنی فرمانروا نے ان خیالات کا اظہار فلسطینی عوام کے ساتھ عالمی یکجہتی کے موقع پر اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے فلسطینی امور کے چیئرمین شیخ نیانغ کو لکھت گئے ایک مکتوب میں کیا۔
خیال رہے کہ 29 نومبر کو ہرسال فلسطینیوں کے ساتھ عالمی سطح پر یوم یکجہتی منایا جاتا ہے۔
شاہ عبداللہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ مسئلہ فلسطین کے ایک منصفانہ ، دیرپا اور جامع حل کے افق کی مسلسل عدم موجودگی مشرق وسطی میں جاری تنازع کو بڑھانے کا باعث بنی ہے ۔یہ نہ صرف خطے کی سلامتی اور استحکام کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ پوری دنیا کی سلامتی اور استحکام میں رکاوٹ ہے”۔
مکتوب میں کہا گیا ہے کہ یکطرفہ اقدامات کا تسلسل، فلسطینیوں کے حقوق سے انکار ، فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے، بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، تنازعات اور مایوسی کو بڑھاوا دینے اور انتہا پسندی کی قوتوں کو طاقت ور بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔
اپنے پیغام میں اردنی بادشاہ نے فلسطینی اسرائیل تنازعہ کو دو ریاستی فارمولے کے تحت حل کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے 4 جون ، 1967 کی سرحدوں پرایک آزاد ، خودمختار اور قابل عمل فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے ، جس میں مشرقی بیت المقدس اس کا دارالحکومت کا درجہ دیا جائے۔ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی فلسطینیوں اوراسرائیل کے درمیان جاری تنازع کو دو الگ الگ ریاستوں کےقیام پر زور دیا گیا ہے۔