‘میرے بچے مجھ سے ہر روز یہ استفسار کرتے ہیں کہ ہمارے والد کہاں ہیں اور ہم ان سے کیوں نہیں مل سکتے؟، میں انہیں ہر بار یہ کہہ کر خاموش کرا دیتی ہوں کہ وہ جلد ہی تمہارے درمیان ہوں گے۔ یہ کم سن ذہن کیا جانیں کہ ان کے والد صہیونی ریاست کے زندانوں میں کس طرح کے ظلم وبربریت کا سامنا کررہےہیں’۔
یہ الفاظ اسرائیلی زندانوں میں قید ایک فلسطینی موسیٰ صوی کی اہلیہ کے ہیں۔ موسیٰ صوی کے دو بچے سیاف اور محمد ہیں۔ انہیں اسرائیلی عدالت کی طرف سے ساڑھے پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس میں سے وہ چار سال 8 ماہ قید کاٹ چکے ہیں۔
منگنی سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری
ام سیاف کا کہنا ہے کہ موسیٰ صوی کے ساتھ شادی سے پہلے بھی موسیٰ اسرائیلی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں۔ ان کی گرفتاریوں اور جیلوں میں قید کا سلسلہ ان کی منگنی سے جاری ہے۔ جب ان کی منگنی ہوئی تو اسرائیلی فوج نے اس عرصے میں بھی انہیں ڈیڑھ سال قید کیے رکھا۔ ہماری شادی کو 10 سال ہوگئے ہیں اور ان 10 برسوں کےدوران میرے شوہر سات سال اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔
سیاف کی عمرنو سال اور محمد کی پانچ سال ہے۔ جب موسیٰ صوی کو حراست میں لیا گیا تو اس وقت محمد کی عمر نو ماہ تھی۔ میرے بچے نے اپنے والد کو اس وقت دیکھا جب وہ زندانوں میں قید تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم یکے بعد دیگرے گرفتاریاں ہی دیکھتے ہیں۔ ایک مشکل کے بعد دوسری مشکل نازل ہوتی ہے۔ میرے شوہر کو سنہ1988ء کو شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے بعد سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سنہ 1994ء کو صہیونی فوج نے ان کا مکان مسمار کردیا گیا اور ان کے گھر کے تمام افراد کو حراست میں لیا گیا۔ ان کے خاندان کے بیشتر افراد یا تو اسرائیلی زندانوں کی جیلوں میں ہیں یا قبروں میں دفن ہوتے ہیں۔
اسیری کا بدلہ اللہ ہی دے گا
ام سیاف کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہم مسلسل عذاب میں زندگی بسرکررہے ہیں مگر ہم اللہ ہی سے اس کا حساب مانگیں گے۔
بہت سے اسیران کے خاندانوں کے حالات ہم سے بھی بدتر ہیں۔ ابو حمید خاندان الامعری کیمپ میں رہائش پذیر ہے مگر اس خاندان کے ساتھ صہیونی دشمن نے بے رحمانہ طرز عمل اپنا رکھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ام سیاف نے کہا کہ کچھ عرصہ تک ہمیں جیل میں ملاقات کی اجازت تھی مگر اب طرح طرح کی پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا ہے۔ ہم جس عذاب سے گذر رہے ہیں اس کا بدلہ صرف اللہ ہی چکائے گا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی زندانوں میں 6500 فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ ان میں سیکڑوں فلسطینیوں میں سے انتظامی حراست کے تحت قید ہیں۔ اڑھائی سو بچے اور پچاس کے قریب خواتین پابند سلاسل ہیں اور ڈیڑھ ہزار فلسطینی مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔