قابض صہیونی ریاست نے نومبر کے وسط میں فلسطین کےعلاقے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ جارحیت مسلط کی تو حسب معمول بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس دوران کئی فلسطینی خاندانوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔
صہیونی ریاست کے جرائم کا سامنا کرنے والے فلسطینیوں میں ‘السوارکہ خاندان’ بھی شامل ہے۔ غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے دیر البلح کے رہائشی السوارکہ خاندان کے گھر پرصہیونی فوج کی طرف سے وحشیانہ بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں اس مظلوم اور معصوم خاندان کے 8 افراد شہید اور 12 زخمی ہوگئے۔ شہداء میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
اس واقعے نے انسانی حقوق اور انصاف کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں کو ایک بار پھر جنھجھوڑا ہے۔ صہیونی دشمن نے اعتراف کیا ہے کہ قابض فوج نے غلطی سے السوارکہ خاندان کو نشانہ بنایا۔ یہ فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی غلطی کا نتیجہ تھا۔ اسرائیلی ریاست کی طرف سےاعتراف اور اقبال جرم کے بعد عالمی اداروں میں صہیونی لیڈروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا دروازہ کھل گیا ہے۔
دیر البلح میں السوارکہ خاندان کے گھر پراسرائیلی فوج نے ایک ہی وقت میں 7 میزائل داغے جس کے نتیجے میں 9 فلسطینی شہید اور 12 زخمی ہوئے۔ شہداء اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر بچے شامل تھے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں صرف تین دن میں 34 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت خطرے میں بیان کی جاتی ہے۔
فلسطین کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سنہ 2008ء کی جارحیت کے بعد اب تک صہیونی فوج غزہ کی پٹی میں 147 فلسطینیوں کو اسی بے رحمی کے ساتھ اجتماعی قتل عام کا نشانہ بنا چکی ہے۔
صریح اعتراف
قابض صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں السوارکہ خاندان کو اجتماعی طورپر شہید کرنے کے اعتراف کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے صہیونی ریاست کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں بالخصوص عالمی فوج داری عدالت میں آواز بلند کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ وہ السوارکہ خاندان کو اجتماعی طورپر موت کےگھاٹ اتارنے کے واقعے کی تحقیقات کررہےہیں۔ یہ واقعہ فلسطینی دھڑوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان جنگ بندی سے چند گھنٹے قبل پیش آیا تھا۔
عالمی قانون کے ماہر ڈاکٹر عبدالکریم شبیر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ السوارکہ خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسرائیلی فوج کا صریح جنگی جرم ہے۔ یہ واقعہ انسانیت کے خلاف جرم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مجرمانہ دہشت گردی کے نتیجے میں پانچ بچے، سربرانہ خانہ ، میاں بیوی اور دیگر افراد شامل ہیں۔ یہ سب معصوم اور بے گناہ تھے اور ان میں کوئی ایک بھی کوئی مزاحمت کار نہیں تھا۔ عالمی قوانین کی رو سے اس طرح کا قتل عام انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اس واقعے کے جنگی جرم ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اسےبین الاقوامی جرم قرار دیا گیا۔
تجزیہ نگارصلاح عبدالعاطی کہتے ہیں کہ رواں ماہ کے آخرمیں انسانی حقوق کے کارکن عالمی فوج داری عدالت کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کریں گے جس میں السوارکہ خاندان کے وحشیانہ قتل عام کے جُرم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2008ء، 2012ء اور 2014ء کو غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جارحیت میں صہیونی فوج نے بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کا اجتماعی قتل عام کیا۔ غزہ کی پٹی میں جاری حق واپسی تحریک کے دوران بھی صہیونی فوج نے انہیں وحشیانہ طاقت کا استعمال کرکے شہید کیا۔