اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے اپنے اس دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی قائم کردہ یہودی بستیاں غیرقانونی ہیں اور یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی گئی ہیں۔اس نے ان یہودی بستیوں کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے نظرثانی شدہ مؤقف کو مسترد کردیا ہے۔
امریکا نے سوموار کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں فلسطینی اراضی پر یہودی آبادکاروں کی بستیوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور ان کے بارے میں گذشتہ چارعشروں سے اختیار کردہ مؤقف سے انحراف کیا ہے۔پہلے امریکا یہ کہتا رہا ہے کہ یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کے ترجمان روپرٹ کولویلی نے منگل کے روز جنیوا میں نیوزبریفنگ میں کہا کہ’’کسی ایک ریاست کے مؤقف یا پالیسی میں تبدیلی سے بین الاقوامی قانون تبدیل نہیں ہوجاتا یا اس سے عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تشریح نہیں تبدیل ہوجاتی ہے۔‘‘
امریکا کی غربِ اردن میں یہودی بستیوں کے بارے میں اب تک پالیسی 1978ء میں محکمہ خارجہ کی قانونی رائے پر مبنی تھی۔اس نے یہ قرار دیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کا قیام بین الاقوامی قانون کے منافی ہے۔
جنگی قوانین کے بارے میں چوتھا جنیوا کنونشن واضح طور پر قابض ملک کو اپنے شہریوں کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا ہے لیکن سابق صدر براک اوباما کی صدارت کے آخری ہفتوں میں امریکا نے قرارداد 2334 کی منظوری کی مخالفت نہیں کی تھی۔اس قرارداد میں اسرائیل کی قائم کردہ یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی ’’ننگی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا تھا۔امریکی مؤقف میں اس تبدیلی کی ایک وجہ یہ تھی کہ براک اوباما تب انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے نالاں تھے۔
یادرہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس سمیت غربِ اردن اور غزہ کی پٹی کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔اس کے بعد ان فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں قائم کرنا شروع کردی تھیں۔اسرائیل اپنے تئیں اُن بستیوں کو قانونی قراردیتا ہے جن کی اس نے منظوری دی تھی اور انھیں غیر قانونی قرار دیتا ہے جنھیں یہودی آبادکاروں نے فلسطینی علاقوں میں ازخود ہی تعمیر کرلیا تھا۔