مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے کئی سال سے صہیونیوں کی مکروہ ریشہ دوانیوں کا سامنا کررہا ہے۔ قبلہ اول کے دفاع کے لیے جہاں فلسطینی عوام بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس کے فرزندان پیش پیش ہیں وہیں فلسطینی مائیں اور بہنیں بھی اس عظیم مشن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ فلسطینی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں پورے عزم ،حوصلے، صبر اور اللہ جل شانہ پر توکل کرتے ہوئے صہیونی ریاستی دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کررہی ہیں۔
جب بھی قابض صہیونی اور غاصب اسرائیلی پولیس اہلکار قبلہ اول پر دھاوے بولتے ہیں تو ایسے مواقع پر فلسطینی خواتین مائیں اور بہنیں پیش پیش ہوتی ہیں۔ وہ اپنے جان وتن اور روح کے ساتھ قبلہ اول کے دفاع کے لیے ہرقربانی دینے کے جذبے سے سرشار رہتی ہیں۔ ان کے لیے قبلہ اول سے بڑھ کر کوئی چیز قیتمی نہیں۔ وہ اپنے جان ومال، گھر بار، کام اور ہرچیز کو قبلہ اول کے دفاع پر لگانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔
قبلہ اول کے دفاع میں پیش پیش ان مرابطات کو صہیونی فوج کی طرف سے حملوں، مارپیٹ، مسجد اقصیٰ سے جبری بے دخلی، نماز کی ادائی پرپابندی، گھروں میں جبری نظر بندی اور کئی دیگر مکروہ حربے آزمائے جاتے ہیں۔
قبلہ اول کا دفاع ایمان کا حصہ
قبلہ اول کی محافظہ اور مرابطہ خدیجہ خویص اسکول میں معلمہ ہیں۔ وہ کئی بار قبلہ اول کے دفاع کی پاداش میں گرفتار ہونے کے بعد صہیونی جیلوں میں قید کاٹ چکی ہیں۔ وہ معمول کے مطابق مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرتی اور اس کے بعد وہ اپنے اسکول میں تدریس کے لیے جاتی ہیں۔ شام کو مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائی کے ساتھ بھی خدیجہ اپنا بیشتر وقت قبلہ اول کو دیتی ہیں۔ ان پرکئی بار صہیونی فوج اور پولیس کی طرف سے قبلہ اول میں داخلے پرپابندی عاید کی جا چکی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے خدیجہ خویص کا کہناہےت کہ مسجد اقصیٰ سے ربط اور تعلق ہمارے شعائر دین میں شامل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کام ہم صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔قبلہ اول سے ربط ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ مسجد اقصیٰ کے خلاف صہیونی ریاست کی مکروہ چالوں کا مقابلہ کرنے کی اپنی خصوصیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے دھاوے اور اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنا ہمارا دینی فریضہ اورقومی ذمہ داری ہے۔ صہیونی آباد کاروں کے دھاووں کے خلاف ہماری جدو جہد اور مزاحمت ہی قبلہ اول کے دفاع کا ایک ذریعہ ہے اور ہم صہینیوں کو قبلہ اول پر اپنا تسلط جمانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
خدیجہ خویص نے کہا کہ مسجد اقصیٰ پر دھاووں کا کوئی سیزن نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی وقت مقرر ہے تاہم یہودیوں کے مذہبی تہوار مسلمانوں کے قبلہ اول کی بے حرمتی کا ایک خاص موقع ہوتے ہیں جب قابض صہیونی قبلہ اول کی بے حرمتی کرتے اور مقدس مقام کو پامال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منظم انداز میں دھاوے بولتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہودی آباد کاروں کے دھاووں کے موقع پر قابض صہیونی فوج اور یہودی آباد کاروں کی کارروائیوں کے دوران فلسطینیوں کو قبلہ اول میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کو نماز اور عبادت کے لیے باب السلسلہ سے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
انہوں نے بتایا کہ قبلہ اول کی ہرمسجد اقصیٰ کی مرابطات روز مرہ کی بنیاد پرصہیونیوں کے انتقامی حربوں اور تشدد کا سامنا ہے۔ انہیں بھی دفاع قبلہ اول کی پاداش میں 25 بار پوچھ تاچھ کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ان کے حجاب اور کھینچ ڈالتے ہیں۔ ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتےاور مکروہ حربوں کے ذریعے انہیں ہراساں کرتے ہیں۔
مرابطین کا کردار
اسلامی اوقاف کے ڈپٹی ڈائریکٹر الشیخ ناجح بکیرات کا کہنا ہے کہ فلسطینی مائوں اور بہنوں کا دفاع قبلہ اول کے لیے کردار ناقابل فراموش ہے۔ فلسطینی خواتین کو قبلہ اول کے دفاع کے حوالے سے کردار سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الشیخ ناجح بکیرات کا کہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ سے خواتین کا ربط انسانی تاریخ اور ایمان کا جزو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات کا دفاع مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان کا جزو ہے۔ ہر فلسطینی چاہے وہ مرد ہو، عورت، بوڑھا ہو یا بچہ قبلہ اول کے دفاع کو اپنی جان سے زیادہ عزیز جانتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں الشیخ ناجح بکیرات کا کہنا تھا کہ مردوں کی طرح خواتین مرابطات بھی قبلہ اول کے دفاع کی پاداش میں جیلوں میں قید کی جاتی، تشدد کا نشانہ بنائی جاتی، توہین آمیز برتائو سے گذاری جاتی اور دیگرمکروہ حربوں کا شکار کی جاتی ہیں۔ تاہم یہودی شرپسندوں کے دھاووں کے موقع پر 200 سے300 مرابطات دینی اور تدریسی عمل میں مسجد اقصیٰ میں حصہ لیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2015ء کو مسجد اقصیٰ میں کشیدگی کے دوران اسرائیلی پولیس کے تشدد سے متعدد خواتین کے بازو اور ٹانگیں توڑ دی گئی تھیں۔