آئے روز قابض صہیونی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کو راہ چلتے گولیاں مار کر شہید کردیا جاتا ہے۔ ماورائے عدالت فلسطینیوں کے قتل کے واقعات سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کھل کرسامنے آرہی ہیں۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک فوٹیج وائرل ہوئی میں جس میں صہیونی فوجیوں کو ایک فلسطینی نوجوان کو بے دردی کے ساتھ گولیاں مار کر شہید کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ فوٹیج اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ فلسطینیوں کو بغیر کسی خطرے کے گولیوں کا نشانہ بنانا صہیونی فوج کا دل پسند مشغلہ بن چکا ہے۔
نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کو چوکیوں سے گذرتے ہوئے گولیوں سے بھون ڈالنے کے واقعات پر فلسطینی عوام میں سخت غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔
کسی فلسطینی کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کرنا صہیونی فوج کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ صہیونی عدالتوں کی طرف سے فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے بجائےقاتلوں کو عزت کے ساتھ بری کیا جاتا اور انہیں اعلیٰ عہدوں پر ترقی کی دی جاتی ہے۔
ڈیڑھ سال قبل اسرائیلی فوج نے بیت المقدس داخل ہونے والے ایک فلسطینی نوجوان کو گولیاں مارکرشہید کردیا۔اسرائیلی فوج کی بارڈر سیکیورٹی فورسز نے اس واقعے کی تحقیقات کیں مگر حال ہی میں وہ تحقیقات داخل دفتر کردی گئیں۔
24 سیکنڈ کی اس فوٹیج میں ایک اسرائیلی پولیس اہلکار کو ایک فلسطینی کو دیکھ کر یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ‘رکو’ اس کے بعد وہ بارڈر سیکیورٹی فورسز کی اہلکاروں کی طرف متوجہ ہو ان سے کلاشنکوف لیتا ہے بغیر کسی خطرے یا وارننگ کے اس پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج کی ایک خاتون اہلکار نے فلسطینی نوجوان کی ٹانگ میں گولی ماری۔
گذشتہ 28 اگست کو اسرائیلی فوج نے پولیس اہلکار کو حراست میں لیا۔ دوران حراست اس نے کہا کہ وہ اپنے ایک دوسرے فوجی اہلکار کے ساتھ یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آیا فلسطینی گولیاں لگنے کے بعد وہ کتنی دیر زندہ رہتا ہے۔
عبرانی ٹی وی چینل 13 اور اخبار’ہارٹز’ کے مطابق اسرائیلی پولیس اہلکاروں نے فلسطینی شہری کو محض’تفریح’ کے لیے گولیاں مار کر قتل کیا۔
عبرانی اخبار کے مطابق فلسطینی نوجوان کو تفریح کی آڑ میں قتل کرنے کے جرم میں چار اسرائیلی فوجیوں کو حراست میں لیا گیا۔
فلسطینیوں میں غم وغصہ
فوٹیج کے سوشل میڈیا پروائرل ہونے کے بعد اس واقعے کے خلاف فلسطینی عوام میں شدید غم وغصے کی فضاء پائی جا رہی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ کسی فلسطینی کے ماورائے عدالت اور تفریح کی شکل میں صہیونی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ایسے ان گنت واقعات موجود ہیں میں فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے کے واقعات میں صہیونی فوج کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دشمن نے فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ رکھا ہے۔ جب چاہتے ہیں فلسطینیوں پر بغیر کسی وجہ کے گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ فلسطینی نوجوان کو تفریح کی غرض سے جان سے مارنے کے واقعے سے صہیونی دشمن کی وحشیانہ ذہنیت اورجرائم کی سطح کی عکاسی ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کو قتل کرنے کے واقعات کے پیچھے صہیونی مذہبی دہشت گردی کی سوچ بھی کار فرما ہے۔ کئی یہودی ربی فلسطینیوں کو تفریح کے لیے فتوے صادر کرچکے ہیں۔ ان میں یتزحاق شابیرا، یوسف الیٹزو اور کئی دوسرے یہودی ربی شامل ہیں۔
مذکورہ دونوں یہودی ربی اسرائیل میں اعلیٰ مذہبی اتھارٹی اور عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ ان کے نزدیک غیر یہودی ادنیٰ درجے کی مخلوق ہیں۔ اگر کوئی یہودی کسی غیر یہودی کو قتل کرتا ہے تواسے کوئی بڑا اور سنگین جرم تصور نہیں کیا جائے گا۔
منظم حملے
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ’بتسلیم’ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی چوکیاں فلسطینیوں کی قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ فلسطینیوں کو چوکیوں سے گذرتے ہوئے گولیاں مار کر شہید یا زخمی کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد زخمیوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے جب کہ شہید ہونے والوں کے جسد خاکی بھی قبضے میں لے لیے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو محض تفریح کے لیے قتل کردیا جاتا ہے جب کہ ان کا کوئی جرم بھی نہیں ہوتا۔ فلسطینیوں کو جان سے مار دینے کے واقعات کی کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی جاتیں اور نہ ہی قتل کے واقعات کو میڈیا میں کوریج دی جاتی ہے۔
تجزیہ نگارمحمود المصری کا کہنا ہے کہ فلسطینی شہری کو گولیاں مار کر قتل کرنے والے واقعے کے پیچھے بھی اسرائیلی فوج کا ہاتھ ہے جو فلسطینیوں کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔
یونیورسٹی طالب علم عزالدین ناصر کا کہنا ہے کہ مذکورہ فوٹیج اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ہمارے خون کے ساتھ کیل رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی بھی صہیونی دشمن کے جرائم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔