‘اعلان بالفور’۔ برطانوی حکومت کی طرف سے صہیونی تحریک سے 2 نومبر 1917ء کو اس وقت کے برطانوی وزیرخارجہ آرتھر بالفور (1848 ء – 1930) ایک خط کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے لیے آبائی وطن کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ مکتوب ارب پتی یہودی لیونل والٹر روتھشائلڈ کو بھیجا گیا اور اس مکتوب کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے ایک ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔
فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ سنہ1922-1948 ء نے صیہونی تحریک کی مکمل طرف داری کی جس کےنتیجے میں یہ تحریک ریاست کے مملکت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔سنہ 1939ء تک یہودی ریاست صرف کاغذوں اور خاکوں کی حد تک محدود تھی۔ اس کے بعد یہودی کاروباری اور سیاسی پنڈتوں نے فلسطین میں یہودیوں کا سرمایہ منتقل کرنا شروع کیا۔ یورپ سے فلسطین کو منتقل کی جانے والی رقم فلسطین میں یہودی جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کو فراہم کی جانے لگی۔ اس رقم سے انہوں اسلحہ خرید کر فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔
جیسے جیسے وقت گذرتا گیا تو صہیونی تحریک اور برطانوی سامراجی حکومت کے درمیان تعلقات مزید پختہ ہوتے گئے۔
اس برطانوی "وعدے” کا نتیجہ 15 مئی 1948 کو فلسطین کے عوام اور سرزمین کی قیمت پر نام نہاد "اسٹیٹ آف اسرائیل” کی صورت میں سامنے آیا۔ جہاں صیہونی گروہوں نے فلسطینیوں کے خلاف درجنوں قتل عام ، مظالم اور لوٹ مار کے جرائم کا ارتکاب کیا۔ پانچ سو سے زائد دیہات کو مسمار اور اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ یہودی ریاستی دہشت گردی کا مقصد فلسطینیوں کو ختم کرنا اور آس پاس کے علاقوں میں خوف و ہراس پھیلانا تھا تاکہ فلسطینی باشندوں کو بعد میں نقل مکانی کرنے میں آسانی پیدا ہو۔ جزیرہ نما النقب میں بسنے والے ہزاروں فلسطینیوں کو بندوق کی نوک پر وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔
بین الاقوامی قانون کے ماہرین نے "اعلان بالفور” کو مسترد کرتے ہوئے متعدد وجوہات کی بناء پر اس کو باطل قرار دیا ہے۔
* اعلان بالفور سنہ 1917ء میں کیا گیا تھا۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب برطانیہ فلسطین کے ساتھ کوئی قانونی تعلق نہیں رکھ سکتا تھا۔
* فلسطین پر برطانوی قبضہ اعلان بالفور کے اجراء کے بعد ہوا۔ایک قابض ریاست کا قانون مقبوضہ ریاست میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت کی فوجی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ برطانوی حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ فلسطین کو خلافت عثمانیہ کے کنٹرول سے آزاد کرکے وہاں پرقومی حکومت کا قیام ہے۔
* ‘اعلان بالفور’ فلسطین کو ایک ایسے گروہ کو دے گیا جو فلسطین پر قبضے کا کوئی بھی اور کسی بھی طرح کا حق نہیں رکھتا تھا۔
اعلان بالفور خودمختار ریاستوں یا بین الاقوامی اداروں کے مابین کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ لارڈ بالفور برطانوی عہدیدار تھا لیکن اسےاپنی ریاست کے نام پر معاہدہ کرنے کا حق نہیں تھا۔ لارڈ روتھشائلڈ ایک برطانوی صہیونی تھا ، لیکن وہ دنیا میں یہودی برادری کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔
اعلان بالفور سے فلسطینی آبادی کے حاصل کردہ تاریخی اور قومی حقوق کو نقصان پہنچا۔ وہ ہزاروں سالوں سے فلسطین میں ہیں ، اور پہلی جنگ عظیم میں اتحادی اور فاتح ممالک نے خود ارادیت کے حق اور ان کے مطابق سیاسی اور معاشرتی نظام کے انتخاب کے حق کو تسلیم کیا ہے۔
* اعلان بالفور لیگ آف نیشنز یا مینڈیٹ انسٹرومنٹ کے میثاق کے کچھ مضامین سے متصادم ہے۔ مثال کے طور پر یہ چارٹر کے آرٹیکل 20 سے متصادم ہے اور برطانیہ کو اس متن کی پاسداری کرنی چاہیئے تھی۔ اسے بالفور اعلامیہ سے وابستگی کا خاتمہ کرنا چاہیئے تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
استعماری ریاست کو اپنے مقبوضہ علاقے یا زیرتسلط علاقوں کو کسی تیسرے فریق کو دینے کا کوئی حق یا اختیار نہیں۔ عالمی قانون کی رو سے کوئی ملک غیرقانونی طور پرقبضے میں لیے گئے علاقے کو فروخت کرسکتا ہے، نہ لیز پردے سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی تیسرے فریق کو ملکیت میں دینے کا مجاز ہے۔
قانون دانوں کا کہنا ہے کہ لیگ آف نیشن نے مینڈیٹ میں بلفور اعلامیہ کو شامل کرنے کی اجازت دے کر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ لیگ آف نیشن کو کسی بھی صورت میں فلسطینی اراضی پر یہودیوں کو تصرف دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔
اعلان بالفور کا متن
محترم روتھشیلڈ
مجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے ازحد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور اس کی توثیق ہماری کیبینیٹ بھی کر چکی ہے :
"شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (مسلمان اور مسیحی) کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔ "
میں بہت ممنون ہوں گا اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔