ویسے تو ارض فلسطین پر نام نہاد صہیونی ریاست کے قیام کے بعد سے ہی سرزمین فلسطین پر یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ تین سال پیشتر جب امریکا میں ری پبلیکن پارٹی کے ایک صہیونی نواز نسل پرست ڈونلڈ ٹرمپ منصب صدارت پرفائز ہوئے تو فلسطین میں یہودی آباد کاری کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ہی اسرائیل کو یہودی آباد کاری کے لیے فری ہینڈ دینے کا عہد کیا تھا۔ اس نے اپنا وہ وعدہ پورا کردکھایا اور بیت المقدس کو یہودیانے کے منصوبوں کو عملہ جامہ پہنانے میں مدد فراہم کرنے کے لیے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا اور امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرکے صہیونی ریاست کو یہ پیغام دیا گیا کہ امریکی انتظامیہ ہرحال میں صہیونی ریاست کی پشت پرکھڑی ہے۔ اس پیغام کے ملتے ہی صہیونی ریاست مزید بے لگام ہوگئی اور اس نے القدس اور مغربی کنارے کے تمام شہروں حتیٰ کہ گنجان آباد فلسطینی شہر الخلیل میں بھی یہودی توسیع پسندی کے منصوبے نافذ کرنا شروع کردیے۔
غرب اردن کےشمال سے جنوب تک اور القدس میں مجموعی طور پر معالیہ ادومیم، یستھار، آرئیل کریات 4، مشیل ادومیم اور حجم میں 240 چھوٹی یہودی کالونیاں شامل ہیں۔
اسرائیلی ریاست غرب اردن کے ایک بڑے حصے پریہودی کالونیاں تعمیر کرچکی ہے۔ اس وقت غرب اردن کا 60 فی صد علاقہ یہودی آبادکاری کےخطرے کی زد میں ہے۔
اسرائیل میں ستمبر کے وسط میں ہونے والے پارلیمانی انتتخابات سے قبل وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا تھا کہ وہ حکومت بنانےکی صورت میں وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کریں گےاور اس کے علاوہ غرب اردن کی تمام یہودی کالونیوں کواسرائیل کی عمل داری میں لائیں گے۔
چند روز قبل اسرائیلی ریاست کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ جنوبی نابلس میں قریوت کے مقام پر فلسطینیوں کی 700 دونم اراضی پرقبضے کی تیاری کررہی ہے۔ اس کے علاوہ القدس میں خان الاحمر کے قریب کوڑا کرکٹ پھینکنے کےلیے 900 دونم اراضی پرقبضے کا اعلان کیا گیا ہے۔
روز افزوں بڑھتی یہودی آباد کاری
بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ جلد ہی غرب اردن کے تاریخی شہر الخلیل میں بھی یہودی آباد کاری کے منصوبوں پرکام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ الخلیل شہر ہمارا اگلا ہدف ہوگا۔
تجزیہ نگار جمال عمرو نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں یہودی توسیع پسندی کے منصوبوں کا آغاز نکبہ یعنی سنہ 1948ء سے قبل اس وقت شروع ہوا جب خلافت عثمانیہ کے دور میں فلسطین میں 1500 یہودی خاندان بھیجے گئے۔ النکبہ کے بعد تاریخی فلسطینی اراضی کے 80 فی صد رقبے پر یہودی ریاست قائم کی گئی اور یہ منصوبہ نیشنل جیوش فنڈ کی طرف سے جاری کیا گیا۔ سنہ 1993ء میں اسی منصوبے کوآگے بڑھانے کے لیے ایک نئی سازش کی گئی اور فلسطین کی 20 فی صد اراضی پر بھی صہیونی ریاست کا غیراعلانیہ انتظامی کنٹرول تسلیم کرلیا گیا۔
بیت المقدس میں یہودیت
اسرائیلی ریاست مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کے منصوبوں کو سند جواز مہیا کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے اور دعوے اختیار کرتی ہے۔ عالمی سطح پر سفارتی محاذ پے صہیونی ریاست فلسطینیوں پر سام دشمنی کا الزام عاید کرکے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور عالمی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔
تجزیہ نگار جمال عمرو کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست دنیا میں اس تصور کو راسخ کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں اور القدس کے تمام مذہبی مقامات یہودیوں کے مقدس مقامات ہیں جن میں عبادت کا حق صرف یہویوں کو ہے۔
انہوں نے کہا کہ القدس میں اسرائیل نےپہلے ہی ساڑھے چار لاکھ یہودیوں کو بسا رکھا ہے۔ صہیونی حکومت القدس میں یہودی آباد کاری کے لیے دن رات منصوبوں پرکام کررہی ہے۔ ساڑھے چار لاکھ یہودی ہوا میں نہیں بلکہ زمین پر ہیں اور انہوں نے بنیادی ڈھانچے بنا رکھے ہیں۔ سڑکیں، پل، میٹرو بسیں اور دیگر توسیعی منصوبے۔ ان سڑکوں کے 150 میٹر دائیں اور اتنا ہی بائیں سمت میں رقبہ صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔
ٹرمپ نے ایک طرف القدس اور فلسطین میں یہودی آباد کاری کی حمایت کی بلکہ شام کے مقبوضہ وادی گولان کے علاقے پر اسرائیلی ریاست کے تسلط کو بھی مکمل حمایت فراہم کی اور اس علاقے پر صہیونی ریاست کے قبضے کی فخر کے ساتھ حمایت کی گئی۔
القدس اور الخلیل
یہودی آباد کاری کا سلسلہ نہ صرف القدس بلکہ غرب اردن کے علاقے الخلیل میں بھی یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسیطنیوں کی اراضی پر قبضے کی سازشیں الخلیل میں بھی جاری ہیں۔
غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں یہودی آباد کاری کےکئی منصوبےروبہ عمل ہیں۔ غرب اردن کےسیکٹر ‘سی’ میں زمین کے سودا کر مسلسل فلسطینی اراضی غصب کررہے ہیں۔
جس طرح القدس کو چاروں اطراف سے یہودی توسیع پسندی کے منصوبوں میں گھیرا گیا ہے۔ اسی طرح الخلیل کے ٹیلوں، پہاڑوں اور آبادیوں میں یہودی آباد کاری کے منصوبے روبہ عمل ہیں۔
تجزیہ نگار عمرو کا کہنا ہے کہ القدس میں اس وقت یہودی آباد کاری کی توجہ کا محور مسجد اقصیٰ ہے جب کہ اس کے اطراف میں جبل الزیتون، جبل المکبر، تلہ الفرنسیہ اور دیگر مقامات پر توراتی مذہبی منصوبوں کے تحت یہودیوں کو بسایا جا رہا ہے۔
الخلیل شہر میں ‘غوش عتصیون’ یہودی کالونی کی توسیع کے لیے فلسطینی علاقوں پرقبضے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پرانے الخلیل میں فلسطینی دکانداروں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
الخلیل شہر کے قلب میں 500 یہودی آباد کار بسائے گئے ہیں۔ الخلیل میں بیت ابراہیم، بیت ھداسا، بیت رومانو، تل رمیدا، کریات 4 یہودی کالونیاں اور ‘گیواتی’ فوجی بریگیڈ قائم ہے جس میں ایک ہزار اسرائیلی فوجی تعینات ہیں۔