اسرائیلی ریاست کی مجرمانہ نسل پرستی کے مظاہر ہرشعبہ ہائے زندگی میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ایک فلسطینی تجزیہ نگارکا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کے ماتحت جامعات میں بھی نسل پرستی کے مظاہرے کھلے عام دیکھے جا رہے ہیں۔ اساتذہ کی بھرتیوں میں بھی نسل پرستی برتی جاتی ہے۔
فلسطینی پروفیسر یوسف جبارین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یونیورسٹیوں میں 51 ہزار طلباء اور طالبات ہیں مگر طلباء کے تناسب کے اعتبار سے وہاں پر طلباء کو عرب اساتذہ میسر نہیں بلکہ انہیں زبردستی یہودی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔ بعض جامعات میں عرب اساتذہ کی تعداد صفر اور زیادہ سے زیادہ 2 فی صد ہے۔
یوسف جبارین کا کہنا ہے کہ التخنیون انسٹیٹوٹ میں 500 اساتذہ ہیں جن میں عرب اساتذہ صرف 12 ہیں۔ بن گوریون میں 550 پروفیسر صاحبان میں 30 عرب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ صہیونی ریاست کی جامعات میں عرب اسٹاف تعینات نہیں کیا جا رہا ہے۔ انتظامی شعبے میں اسرائیلی جامعات میں کل عملے کی تعداد 9 ہزار 500 ہے اور ان میں عرب شہریوں کی تعداد صرف 90 ہے جو ایک فی صد سے بھی کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمک سیکشن میں عرب اسٹاف کی تعداد صرف ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی 61 جامعات میں زیرتعلیم طلباء وطالبات کی تعداد تین لاکھ 13 ہزار بتائی جاتی ہے۔