الحاجہ ام ناصر ابو حمید ایک شہید اور چھ اسیر بیٹوں کی ماں ہیں۔ فلسطین میں صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی جدو جہد میں ام ناصر ابوحمید پہاڑ کی طرح کھڑی ہیں۔ ایک بیٹے کو شہید اور چھ کو صہیونی زاندانوں میں ڈالے جانے کے ساتھ ساتھ ان کا گھر صہیونی فوج پانچ پار مسمار کرچکی ہے۔ مگرصہیونی ریاست کے ظلم کی یہ تمام شکلیں دشمن کو اپنے عزائم میں کامیاب نہیں کرسکیں بلکہ جیسے جیسے صہیونی دشمن کا ظلم بڑھتا جا رہا ہے اس کے جذبہ استقامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بہادر فلسطینی ماں کے الفاظ میں جرات اور استقامت کے جذبات کئی سیر خون بڑھا دینے والے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ’میں پہاڑ کی طرح مضبوط ہوں۔ صہیونی دشمن ہمارے گھر مسمار کریں اور ہم پھر بنائیں، پھر مسمار کریں ،پھر تعمیر کریں گے۔ حتیٰ کہ 20 بار بھی مسمار کیا گیا تو ہم 20 بار بنائیں گی۔ ہم صہیونی مافیا کے سامنے تھکنے والے نہیں۔ صہیونی مافیا کے جرائم ہمارے عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ جب تک تم ہمارے گھروں کو مسمار کرتے رہو مسمار کرو ہم ہربار اپنا گھر دوبارہ تعمیر کرلیں گے’۔
یہ الفاظ اس فلسطینی بہادر ماں کے ہیں جس کا ایک بیٹا غاصب صہیونی افواج کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکا اور چھ بیٹے اس وقت اسرائیلی عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
شہید اور اسیران کی ماں
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 72 سالہ ام ناصر ابو حمید کا بیٹا عبدالمنعم المعروف شاباک کا شکاری سنہ 1994ء میں اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے ‘شاباک’ کے ایک سینیر افسر کو ہلاک کرنے کے بعد جام شہادت نوش کرچکا۔ شہید عبدالمنعم نے نوعیم کوھین نامی سینیر صہیونی انٹیلی جنس افسر کو ہلاک کیا۔
اس کے علاوہ صہیونی فوج نے ام ناصر کے چھ بیٹوں، ناصر، نصر، شریف اور محمود کو عمر قید کی سزائیں سنائی۔ جب کہ جہاد کو انتظامی قید میں ڈالا گیا ہے۔ ان کا ایک بیٹا 32 سالہ اسلام بھی پابند سلاسل ہے اور اسے عمر قید کے ساتھ اڑھائی لاکھ شیکل جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس پر صہیونی فوج نے مئی 2018ء کو غرب اردن میں ایک اسرائیلی فوجی’رونین لوبرسکی’ کو پتھر گرا کر ہلاک کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔
قابض صہیونی فوج نے ام ناصر کا رام اللہ کے قریب ‘الامعری’ کیمپ میں 1994ء میں مسمار کیا۔
عبدالمنعم ابو حمید کو ‘شاباک کا شکاری’ کا لقب القسام بریگیڈ کی طرف سے دیا گیا۔ اس نے صہیونی فوج کے خفیہ ادارے شاباک کے اہلکاروں کو ایک منصوبے کے تحت ہلاک کیا۔ اس کے بعد صہیونی فوج نے اس کے چار بھائیوں کو فوجی افسرکے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔
اس کے بعد سنہ 2002ء میں اسرائیلی فوج نے ان ناصر کا مکان اس وقت مسمار کیا جب تحریک انتفاضہ الاقصیٰ زور پرتھی۔
اس کے بعد ابو حمید کا مکان تین بار مسمار کیا گیا۔ تین بار مکان کی مسماری کی وجہ ام ناصر کے ایک بیٹے اسلام کی طرف سے ایک اسرائیلی فوجی لوبرسکی کی ہلاکت کےرد عمل میں کی گئی۔
اسلام کی کارروائی
فلسطینی مجاھد اسلام نے حراست میں لیے جانے کے بعد بتایا کہ اس نے اسرائیلی فوج کی ڈوڈوان یا مستعربین یونٹ کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔
اس نے بتایا کہ میرے کل 9 بھائی ہیں۔ ان میں سے ایک صہیونی دشمن کی فائرنگ سے جام شہادت نوش کرگئے جب کہ چار کو عمر قید کی سزا کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک کو انتظامی قید میں ڈالا گیا ہے۔
تفتیش کاروں نے جب اس سے پوچھا کہ اس نے ‘الکرز’ یونٹ کا نام کیسے جانا تو ابو حمید کا کہنا تھا کہ میرے بھائی ناصر کا 1990ء میں فائرنگ میں زخمی ہونا اور سنہ 1994ء میں عبدالمنعم کی شہادت نے اس کی توجہ اسرائیلی فوج کے اہلکاروں کی طرف بڑھ گئی تھی۔ میں نے الکرز یونٹ کےاہلکاروں ، ان کی وردی، ٹوپیوں اور ہلمٹ کے علاوہ اسلحہ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کیں۔ حال ہی میں اسرائیلی فوج نے ام ناصر کا مکان ایک بار پھر مسمار کردیا۔