مسجد اقصیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے انجام سے کوئی آگاہ نہیں۔ قبلہ اول کی جس تواتر کے ساتھ اور بڑے پیمانے پرغیر مسبوق بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے وہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ یہ طوفان مسجد اقصیٰ اور القدس ہی نہیں بلکہ پورے فلسطین میں ایک بڑی تحریک کا سبب بن سکتی ہے۔ اس وقت ایک طرف اسرائیل کی سرکاری ریاستی سرپرستی میں یہودی مذہبی عناصر کی قبلہ اول کی بے حرمتی اور مقدس مقام میں نام نہاد تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات کے ساتھ مزعومہ ہیکل سلیمانی کے قیام کی سازشیں آتش فشاں بن کر پھٹ سکتی ہیں۔
ستمبر 2000ء میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم ارئیل شیرون نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر بے حرمتی کا آغاز ہی نہیں بلکہ یہودی اشرار اور انتہا پسند صہیونیوں کے لیے مسلمانوں کے قبلہ اول میں داخلے کا راستہ بھی کھول دیا۔
ارئیل شیرون نے یہودی آباد کاروں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے کا موقع فراہم کیا مگر اس کے نتیجے میں فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے خلاف ایک نئی تحریک انتفاضہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کا نام دیا گیا۔
آج جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کا مستقبل کیا ہوگا تو ماہرین اس کا جواب دیتے ہوئے خبر دار کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست اسی طرح مسجد اقصیٰ کو زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتی ہے جس طرح اسرائیلی ریاست سنہ 1994ء میں غرب اردن میں موجود مسجد ابراہیمی کو تقسیم کرچکے ہیں۔ آج جب مسجد اقصیٰ کی تقسیم کی اسرائیلی سازشوں کی بات کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی سامنے آتا ہے۔ وہ عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دوستی اورقابض ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کی سازشیں ہیں۔
فلسطینی اوقاف کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2018ء کے دوران 29 ہزار 800 یہودہ آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔ مگر رواں سال تو گذشتہ برس کے ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے ہیں۔
القدس اسٹڈی سینٹر کے شعبہ اسرائیلیات کی تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اگست 2019ء کے پہلے 15 دنوں میں 2440 یہودیوں نے قبلہ اول کی بے حرمتی کی۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر اسرائیل کنیسٹ کے انتہا پسند مذہبی رکن یہودا گلیک کی قیادت میں 1729 یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔
گذشتہ کئی سال سے مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے دھاوے معمول بن چکے ہیں۔
یہودیانے کی بڑھتی سرگرمیاں
مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارا اس وقت اسرائیلی ریاست کی طرف سے یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں میں سرفہرست ہیں۔ القدس اور الخلیل میں بڑے پیمانے پر یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں اور آئے روز نئے منصوبے اور اسکیمیں شروع کی جاتی ہیں۔
مسجد اقصیٰ پر صہیونی یلغار چاروں طرف سے جاری ہے۔ ایک طرف روزانہ کی بنیاد پر یہودی آباد کار مسجد اقصیٰ میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہیں اور دوسری طرف صہیونی ریاست مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کے نیچے کھدائیوں اور مسجد کے اطراف میں موجود فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
گذشتہ تین سال سے اسرائیل فلسطین میں قائم کی گئی کسی غیرقانونی بستی کو ختم کرنے پرتیار نہیں ہوا ہے۔
تجزیہ نگار جمال عمرو کا کہنا ہے کہ القدس شہر اور مسجد اقصیٰ 125 مربع کلو میٹر کے علاقے پرپھیلے ہوئے ہیں اور اسرائیل مسجد اقصیٰ کے اطراف کے تمام اہم مقامات کو قبضے میں لینے اور انہیں ہتھیانے کی سازشیں کررہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے فیصلے بعد القدس شہر میں بسنے والے ایک لاکھ 45 ہزار فلسطینیوں کی بے داخلی اور 3 لاکھ یہودی آباد کاروں کو مستحکم کرنے کی سازشیں مزید بڑھ گئی ہیں۔
قبلہ اول کا تحفظ فرض
جہاں تک مسجد اقصیٰ کے خلاف صہیونی ریاست کی منظم یلغار اور قبلہ اول پریہودی آباد کاروں کے دھاووں کی بات ہے تو وہ ناقابل قبول اور شرمناک ہے۔ ان دھاووں اور یلغار کا دفاع فلسطینی قوم اور پوری مسلم امہ کی ذمہ داری ہے۔
قبلہ اول کے دفاع کے لیے فلسطینیوں کو مسلح مزاحمت، قبلہ اول سے عملی ربط سمیت تمام محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ فلسطینی قوم میں القدس اور مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے بیداری اور ذمہ داری کے احساسات پیدا کرنا ہوں گے۔
القدس کے باشندے جو قبلہ اول کے دفاع کے لیے فرنٹ لائن پرکھڑے ہیں کا سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور مالی سطح پر تعاون کرنا ہوگا تاکہ وہ قبلہ اول کے دفاع کے لیے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرسکیں۔ اس کے علاوہ القدس کے باشندوں کی عرب ممالک، علاقائی، عالمی اور اسلامی سطح پر تمام شعبوں میں مدد کی جانی چاہیے۔ یہ امداد عالم اسلام پر فرض ہے۔