پنج شنبه 08/می/2025

کیا اسرائیل اپنے زیر تسلط علاقوں میں عربوں کی نسل کشی کرا رہا ہے؟

ہفتہ 12-اکتوبر-2019

فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران پراسرار طور پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں کم سے کم 70 سے زاید فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے قتل کے بڑھتے واقعات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے اور پلان کے تحت فلسطینیوں کو قتل کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔

دوسرا سوال فلسطینیوں کے قتل کے بڑھتے واقعات میں اسرائیلی پولیس کی طر ف سے چھان بین اور تحقیقات میں لاپرواہی برتنے سے متعلق ہے۔ ایک ماہ میں فائرنگ کے واقعات میں 71 فلسطینیوں کا قتل ایک بڑا اور خطرناک معاملہ ہے مگر اسرائیلی پولیس کی طر ف سے اس پرکوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان واقعات کی جرات مندانہ انداز میں چھان بین کی گئی ہے۔

مقامی فلسطینی قیادت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پولیس فلسطینیوں کے قتل کے واقعات کو دانستہ طور پر دبانے اور ان کی تحقیقات کو نظرانداز کررہی ہے جب کہ اگر ایسے کسی واقعے میں کوئی اسرائیلی یہودی مارا جائے تو اسرائیلی پولیس سمیت کئی دوسرے ادارے بھی اس کی چھان بین شروع کر دیتے ہیں۔

ایسے لگ رہا ہے کہ اسرائیل میں ایک منظم مافیا ہے جو سرکاری سرپرستی میں فلسطینیوں کے قتل کے جرائم میں پیش پیش ہے۔

حال ہی میں مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں قابض صہیونی پولیس کے خلاف فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور بہ طور احتجاج کاروباری مراکز بند کرکے ہڑتال کی۔ یہ احتجاج فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے واقعات کو نظرانداز کرنا اور ان کی تحقیقات کو دانستہ طورپر فراموش کرنا ہے۔

ستمبر میں الکروم کے علاقے میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے 13 فلسطینیوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس میں  دو الگ الگ واقعات میں چار سگے بھائیوں کا قتل بھی شامل ہے مگر ان اس بے رحمانہ قتل عام کے معاملے پر اسرائیلی پولیس مسلسل خاموش تماشائی ہے۔

ایک مقامی سماجی کارکن خالد ابو عصبہ جو مسار انسٹی ٹیوٹ برائے سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ  اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ایک  ملین افراد میں سے 10 کو قتل کر دیا جاتا ہے جب کہ فلسطین میں یہ شرح 11 فی صد ہے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں تو یہ شرح 46 فی صد تک جا پہنچی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اندرون فلسطین میں لگاتار جرائم کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ "اسرائیل”  کی منصوبہ بند سوچے سمجھے  منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ اس مذموم  منصوبے کا مقصد اسرائیلی ریاست کی عرب برادری  کو نسل کشی کی بھینٹ چڑھا کر انہیں عدم تحفظ سے دوچار کرنا ہے۔

اندرون فلسطین میں  بسنے والے فلسطینیوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جو کچھ ہو  رہا ہے وہ صیہونی انٹیلی  اداروں کی کارروائیوں اور منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار عدنان محاجنہ  نے استفسار کیا کہ اسرائیلی پولیس حالیہ برسوں میں یہودی کمیونٹی میں موجود  مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کو ختم کرنے میں کیوں کامیاب ہوئی ہے؟ اسرائیلی پولیس نے یہودی حلقوں میں منشیات کے گروہوں سمیت  دیگر گروپوں کو  کچلا ہے مگر فلسطینیوں کے قتل میں ملوث عناصر کی شناخت کیوں نہیں ہوسکی ہے؟۔

فلسطینی قانون دان رضا جابر نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ سنہ 2000ء کے بعد سے اب تک 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں مافیا کے ہاتھوں 1350 فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں۔ سنہ 2018ء میں 14 خواتین سمیت 75 فلسطینیوں کو قتل کردیا گیا۔

سنہ 2017ء میں 72، 2016ء میں 16، 2015ء میں 58 فلسطینیوں کو قتل کردیا گیا۔ رواں سال کے دوران چند ماہ کے دوران 25 فلسطینیوں کو قتل کردیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی