شنبه 16/نوامبر/2024

صہیونی زندان میں فلسطینی دوشیزہ تشدد کی لرزہ خیز داستان

بدھ 9-اکتوبر-2019

اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہر فلسطینی کو حراستی مراکز میں غیرانسانی اور مکروہ نوعیت کے تشدد کے طرح طرح کے حربوں کا سامنا ہے۔ ہراسیر کی داستانی اسیری المناک اور انتہائی خوف ناک ہوتی ہے۔

انہی اسیران میں ایک 24 سالہ ھبہ اللبدی ہیں جو پچھلے 16 دن سے بلا جواز انتظامی قید کی سزا کے خلاف بہ طور احتجاج  بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ھبہ اللبدی کو اسرائیلی زندان الجلمہ میں قید تنہائی میں ڈالی گئی ہیں مگر انہوں نے اس کے باوجود حراستی مرکز میں ڈالا گیا ہے۔

فلسطینی محکمہ امور اسیران کے ایک مندوب نے حال ہی میں الجلمہ حراستی مرکز میں ھبہ اللبدی سے ملاقات کی۔

اس ملاقات میں اللبدی نے صہیونی زندان میں اپنی سیری اور گرفتاری کے بعد پیش آنے والی المناک داستان کی بیان کی۔اس نے بتایا کہ وہ 20 اگست 2019ء کو اردن سے مغربی کنارے میں اپنی خالہ کی بیٹی شادی کی شرکت کے لیے آئی۔ اس کے ہمراہ اس کی ماں اور ایک دوسری خالہ بھی ساتھ تھیں۔ غرب اردن آنے کے پانچ دن بعد قابض اسرائیلی فوج نے مجھے حراست میں لے لیا۔

اس نے مزید کہا کہ ہم صبح نو بجے کے قریب النبی کراسنگ پوائنٹ اور  اردن کی سرحد پر بنے پل پرپہنچے۔ وہاں پر اسرائیلی فوج نے مجھے حراست میں لے لیا۔

 میں نے چیخ چیخ کراپنی گرفتاری کی وجہ معلوم کی مگرمجھے کچھ نہ بتایا گیا۔ مجھے ایک تنگ اور تاریک کوٹھڑی میں بندکردیا گیا اور ایک خاتون اہلکار کو پہرے پر کھڑا کردیا گیا۔

کئی گھنٹے حبس بے جا میں رکھنے کے بعد اسرائیلی فوج کے تفیش کار آئے۔ ان کے ہمراہ تفتیشی کتے بھی تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے میری برہنہ تلاشی لینے کی کوشش کی مگر میں نے برہنہ تلاشی دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں ایسا نہیں ہوںے دوں گی بلکہ بھرپورمزاحمت کروں گی۔ میرے انکار کے باوجود غنڈہ صفت صہیونی دہشت گردفوجیوں نے میری جامہ تلاشی لی اور نیم برہنہ کردیا۔

اس کے بعدمجھے ہتھکڑی لگائی گئی، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور پائوں میں ایک بھاری زنجیر ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد حالت میں مجھے ایک فوجی اڈے پر لے جایا گیا۔ یہ اڈا حراستی مرکز سے کوئی پونے گھنٹے کی دوری پرتھا۔

‘انہوں نے مجھے نیچے اتارا اور مجھے تقریبا آدھا گھنٹہ کڑی دھوپ میں رکھا۔ اس کے بعد  خواتین فوجی اہلکار آئیں جو ایک کمرے میں لے گئیں۔ انہوں نے مجھ سے میری صحت کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے دوبارہ میری تلاشی لی۔ انہوں نے ایک سپاہی کو بتایا کہ مجھے اپنا پیڈ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ میں ماہ واری کی حالت میں تھی’۔

اسرائیلی خواتین اہلکاروں نے اصرار کیا کہ میں سب کے سامنے پیڈ تبدیل کروں مگر میں ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ مگرانہوں نے میری تذلیل کا تہیا کررکھا تھا۔ یہ میری پرائیویسی کی صریح خلاف ورزی اور راز داری کے حق کی توہین تھی۔ اس کے بعد مجھے ایک انتہائی تنگ ٹوائلٹ میں جانے کی اجازت دی گئی مگرایک مسلح خاتون اہلکار میرے ساتھ تھی رہی حالانکہ ایسا کرنا میرے لیے انتہائی کرب ناک تھا۔

اس نے کہا کہ میں شام کے آٹھ بجے تفتیشی مرکز پہنچا دی گئی۔ مسلسل اور تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنے کے باعث میں بری طرح تھاوٹ کا شکار تھی اور پورا جسم ٹوٹ رہا تھا۔ ماہواری کی تکلیف، اسرائیلی فوج اور تفتیش کارں کا ظالمانہ سلوک اور مسلسل سفر کے باعث میرےلیے کھڑا ہونا مشکل تھا۔

انہوں نے وضاحت کی ابتدائی 16 دن یا پھر اگلے دن صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک ظالمانہ تفتیش کا سلسلہ جاری رہا۔ ان طویل گھنٹوں کے دوران  اسے مارا پیٹا جاتا، ذہنی اور نفسیاتی دبائو کا نشانہ بنایا جاتا۔ پورے دن میں مجھے صرف آدھ گھنٹے کے لیے کھانے کے وقت سیل سے باہرآنے کی اجازت دی جاتی۔

پوچھ گچھ نفسیاتی تشدد اوردیگر حربوں کی شکل میں تھا۔ تفتیش کے دوران کئی گھنٹوں تک تفتیشی کمرے میں بیٹھے ہوئے مجھے کرسی پر بندھے رکھا گیا۔ وحشیانہ تشدد سے میرا جسم چورچور تھا کمر اور گردن میں شدید درد تھا مگر اس کے باوجود مجھے غیرانسانی ماحول میں رکھا جاتا۔

تفتیش کے دوران بار بار اسرائیلی مرد فوجی اہلکار بار بار آتے۔ انہوں نے میرے جسم کو چھونے کی کوشش کی تو میں نے خود کو ان سے دور کرنے کی کوشش کی مگران کا انداز اشتعال انگیز اور جارحانہ تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان تفتیش کاروں نے مجھ سے انتہائی وحشیانہ انداز اختیار کیا۔ مجھ سے حقارت آمیز رویہ اپنایا مجھے حقیر جانور، شکست خوردہ، ، غلام  ، کاکروچ ، کیڑے مکوڑوں کا ساتھی ، بدصورت، اور نہ جانے کیا کیا کچھ کہا گیا۔میں نے پہلی بار صہیونی انتہا پسندوں سے سنا کہ  تم انتہا پسند ہو،اسلام اور عیسائیت انتہا پسند ہیں۔ یہودی زیور ہیں اور آپ اور آپ کا مذہب انتہا پسند، آپ کوڑے دان میں پھینکنے کے قابل اور نسل پرست ہیں۔ میں حیران تھی کہ یہ سب کچھ مجھے نفسیاتی دبائو میں لانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اللبدی نے وضاحت کی کہ انہیں یہ کہتے ہوئے دھمکیاں اور دباؤ ڈالا گیا۔ انہوں نے میری والدہ اور بہن کو گرفتار کیا اور مجھ سے اعتراف جرم کرنے کے لیے طرح طرح کے پر تشدد حربے استعمال کیے۔

مجھے بغیر کسی جرم کے انتظامی حراست کی سزا دی گئی اور ساتھ ہی کہا گیا کہ اس سزا میں بار بار توسیع کی جائے گی۔

اسرائیلی جیلروں کے طرز عمل کے خلاف میں نے بھوک ہڑتال شروع کردی اور اب یہ بھوک ہڑتال مطالبات پورے ہونے تک جارے گی۔

مختصر لنک:

کاپی