اسرائیلی وزارت خارجہ نے وزیر خارجہ یسرایل کاٹز کے ایما پر "مقبوضہ بیت المقدس” میں ترک حکومت کی سرگرمیوں اور ترکی کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں ترکی کی سماجی اور ترقیاتی سرگرمیوں کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ نے القدس میں ترک حکومت کے تعاون سے شروع کی گئی کسی بھی قسم کی سرگرمی پرپابندی لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔
عبرانی اخبار’ہارٹز’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ ان اقدامات کا مقصد اردن کی حیثیت کی حفاظت ہے۔ اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیرخارجہ نے اپنا منصوبہ وزیراعظم کے سامنے پیش کیا جسے انہوں نے منظوری دی ہے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق القدس میں ترکی کی سرگرمیاں نہ صرف اشتعال انگیز ہیں بلکہ اسرائیل کی سلامتی کے خلاف سازش ہیں۔
امکان ہے کہ اس منصوبے سے ترکی کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی کا باعث بنے گا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس معاملے پر کابینہ کی سیاسی اور سلامتی کے امور کمیٹی میں بھی تبادلہ خیال کیا جائے۔
"کاٹز” کے دفتر کے ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ ایک سیکیورٹی مسئلہ ہے اوراسی وجہ سے موجودہ عبوری حکومت کے مینڈیٹ کے دوران اس پر عمل درآمد کو برا نہیں ماننا ہے۔
اخبار نے مزید کہا مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینیوں پر ترکی اثر انداز ہونے کے لیے مختلف منصوبوں پرعمل پیرا ہے۔ یہ معاملہ ہماری قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن القدس کے باشدنوں کی مالی مدد کرکے ان کی وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس منصوبے میں اخوان المسلمون کی عالمی تحریک کو اسرائیل میں ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے الشیخ راید صلاح کی قیادت میں قائم شمالی اسلامی تحریک کو بھی خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔
اس منصوبے میں ترکی "ٹیکا” ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ تنظیم القدس میں یہودی توسیع پسندی کی روک تھام کے لیے کام کررہی ہے۔
اسرائیلی منصوبے کے تحت اسلامی وقف کونسل کے اعلی عہدیداروں اور ترک حکام کے مابین رابطوں پر بھی پابندی لگائی جائے گی القدس میں کام کرنے والے ترک اساتذہ کی ملازمتیں ختم کردی جائیں گی۔