ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک سعودی عرب کا "پُرجوش خیرمقدم” کرنے کے لیے تیار ہے۔ بشرطیکہ سعودی عرب پڑوسی ملکوں میں بدامنی پھیلانے کا سلسلہ بند کردے۔
یہ بات ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کے حوالے سے کابینہ کے اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس کے دوران دیئے گئے ایک بیان میں سامنے آئی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سعودی عرب نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے گرین سگنل دیا ہے؟ ظریف نے کہ کہ ہم نے ہمیشہ زور دیا ہے کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تمام مسائل افہام و تفہیم کے ذریعے حل کریں۔ خطے میں ہم تناؤ پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں۔
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ "اگر سعودی عرب کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ اسلحہ خرید کر اور دوسرے کے لیے سلامتی کے مسائل پیدا کرکے امن حاصل نہیں کرسکتا تو آئے، ہم سعودی عرب کا خیر مقدم کریں گے۔
ظریف کے یہ بیانات ایرانی حکومت کے ترجمان علی روبیعی کے اس بیان کے بعد جاری کیا ہے جس میں ترجمان کا کہنا تھا کہ صدر حسن روحانی کو ایک نامعلوم سربراہ مملکت کے ذریعہ ریاض کا ایک خط موصول ہوا ہے ، لیکن انہوں نے اس خط کے مندرجات کی معلومات نہیں دیں۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایرانی حکومت کے ترجمان کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ایرانی صدر کو کوئی مکتوب نہیں بھیجا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی ترجمان نے جو کہا اس میں کوئی صداقت نہیں۔
گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ایران نے ریاض کے ساتھ کسی بھی تنازع میں ثالثی کا خیر مقدم کیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے پیر کے روز سعودی عرب کے ساتھ تنازعہ حل کرنے کے لئے کسی بھی کوشش اور ثالثی کا خیرمقدم کیا تھا لیکن اس بات کی نشاندہی کی کہ سعودی عرب اس کے لیے تیار نہیں ہے مگرتہران جب ریاض کے ساتھ تناؤ کو دور کرنے کے لئے تیار ہے تو وہ تیار ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں کشیدگی چلی رہی ہے۔ حال ہی میں مملکت میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد تہران اور ریاض میں جاری تنائو میں مزید شدت آئی ہے۔ سعودی عرب نے ان حملوں میں ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔