اسرائیلی زندانوں میں ڈالے جانے والے فلسطینی قیدیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ وحشیانہ اور غیرانسانی تشدد کئی فلسطینیوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ ایک رہورٹ کے مطابق سنہ 1967ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد جہاں قابض صہیونی ریاست کے فلسطین کے وسیع علاقے پر اپنا فوجی تسلط قائم کیا وہیں فلسطینیوں کی گرفتاریوں کا دائرہ اور ان پر وحشیانہ تشدد کے حربے بھی بڑھتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں 1967ء کی جنگ کے بعد اب تک 73 فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین میں اسیران کے حقوق پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے”اسیران کلب” کے مطابق ، سنہ 1967ء کے بعد سے اسرائیلی فوج کے ذریعہ تفتیش کے دوران تشدد کے نتیجے میں 73 فلسطینی قیدی شہید ہوچکے ہیں۔
کلب نے بدھ دو اکتوبر کو جاری ایک رپورٹ کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج فلسطینی قیدیوں اور نظربند افراد کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر اذیت دینے کے لیے مختلف خطرناک ہتھکنڈوں کا استعمال کررہی ہے۔ قیدیوں کے خلاف انتقامی کارروائی اورانسانیت سوز تشدد کیاجاتا ہے۔ ان تفتیشی حربوں کا مقصد قیدیوں کو اعتراف جرم پرمجبور کرنا اور ان پرلگائے گئے جھوٹے اور باطل الزامات کو تسلیم کرانا ہے۔
رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ گرفتاری کے لمحے سے ہی 95 فیصد شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ چھ سالوں کے دوران عرفات جرادات کا معاملہ سنہ 2013 میں سامنے آیا تھا جو تشدد کے نتیجے میں گرفتاری کے پانچ دن بعد ‘مجد’ حراستی مرکز سیل میں شہید ہو گیا تھا۔سنہ2014ء میں ناشون کی افواج نے رائد الجعبری کو جسمانی تشدد کے بعد شہید کیا گیا۔
سنہ 2018ء اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد یاسین الساردیح کو گرفتاری کے بعد گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ اسی سال قابض فوج نے عزیز عویسات کو ایک حراستی مرکز میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ جام شہادت نوش کرگیا۔
اسی سال سنہ 2019ء کے دوران اسرائیلی فوج نے اسیر محمد الخطیب الریماوی کو شہید کردیا گیا۔
اسرائیلی جیلوں میں چھ قیدی ، جن میں ایک بھی شامل ہے ، اپنی انتظامی نظربندی کے جواب میں ، بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔