پنج شنبه 01/می/2025

‘اسرائیلی زندانوں میں انتظامی قید کے خلاف جنگ جاری رہے گی’

بدھ 2-اکتوبر-2019

اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کے قابض صہیونی جیلروں اور انتظامیہ کی طرف سے برتے جانے والے سلوک کے دیگر حربوں میں ایک انتظامی قید کا مکروہ ہتھکنڈہ بھی شامل ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق آئے روز فلسطینی ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی جیلوں میں کسی نا کسی فلسطینی انتظامی حراست کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال کی خبر شائع ہوتی ہے۔ حال ہی میں ڈیڑھ سو فلسطینی اسیران نے بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ اس وقت بھی تقریبا 7 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں انتظامی قید کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔

انتظامی قید دراصل فلسطینیوں کے بنیادی حقوق جن میں آزادی، وقار اور انسانیت کی پامالی کے ساتھ نا انصافی اور ظلم کی بدترین شکل ہے۔

بعض اوقات فلسطینی قیدی انتظامی حراست کے خلاف کئی کئی ماہ تک احتجاجا بھوک ہڑتال جاری رکھتے ہیں۔

ایسے طویل المدت انتظامی حراست کے بھوک ہڑتالیوں میں 31 سالہ مشرقی بیت المقدس کے علاقے ابو دیس کے اسماعیل علی بھی ہیں جو 71 دن سے مسلسل بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔

صحت کی ناگفتہ بہ صورت حال

انتظامی حراست کے تحت پابند سلاسل اسماعیل علی کی ہمیشرہ احلام نے اسیران انفارمیشن سینٹر کو بتایا ہے کہ قابض ریاست کی جیل میں قید کیے گئے ان کے بھائی کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اور صہیونی جیلر اس پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسماعیل علی کو جیل کی اسپتال منتقل کیا گیا ہے مگر خاندان کے افراد اوران کے وکیل کو ان سے ملنے سے روک دیا گیا ہے۔ دوسری طرف جان بلب اسیر نے جرات اور عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے ظلم کے خلاف اور انتظامی قید کی شکل میں کی جانے والی نا انصاف کے خلاف احتجاجی جنگ جاری رکھیں گے۔

احلام نے بتایا کہ ان کے بھائی کی طویل بھوک ہڑتال نے اسیر کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

ہڑتال کے دوران اپنے بھائی کو طبیعت خراب ہونے پر اسپتال میں دیکھا تھا۔ اس نے بتایا کہ علی انیمیا ، شدید چکر آنا اور سر درد میں مبتلا ہے اور شدید نقاہت کے آثارظاہر ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ چلا کہ وکیل کو ان سے ملنے سے منع کیا  گیا ہے۔ وکیل کو ان کے موکل سے 20 دن پہلے ملایا گیا تھا۔

علی راملہ جیل کی اسپتال میں قید ہے جہاں قابض حکام ہڑتال کرنے والے قیدیوں سے نفرت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

بے کار اپیلیں

اسیران علی کے اہل خانہ انتظامی نظربندی  کے خاتمے کے لیے اپنی سطح پر ہرطرح کی کوشش اور جدو جہد کررہے ہیں مگر ان کی طرف سے کی جانے والی تمام اپیلیں بے معنی اور بے کار ثابت ہوئی ہیں۔

اسیر کی ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ یہ اس کے بھائی قیدی کی ساتویں حراست ہے ، جہاں اس نے قابض ریاست کی جیلوں میں سات سال قید کاٹی۔ اسے وفائے احرار معاہدے کے تحت رہا کیا گیا۔ رہائی کے 38 ماہ کے بعد اسے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ دوبارہ گرفتار کرنے کےبعد اسے انتظامی قید کی نام نہاد ظالمانہ پالیسی کے تحت قید کی سزا سنائی گئی۔

احلام کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسماعیل علی کوانتظامی حراست میں منتقل کیا گیا  اسے متعدد بار اس سے قبل گرفتار کرکے انتظامی قید میں ڈالا جا چکا ہے۔

احلام کا کہنا ہے کہ دیگر اسیران کی طرح اسماعیل علی بھی اپنے اردے اور عزم کا پختہ ہے اور اس نے انتظامی قید کے خلاف جاری بھوک ہڑتال کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔

 انسانی حقوق اور سرکاری اداروں کو ہڑتال کرنے والے قیدیوں کی فائل پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اور اس موقع پر ہڑتال کرنے والوں کے مطالبات کا جواب دینے کے لئے اس قبضے پر دباؤ ڈالنے کے لئے مزید عوامی تحریک کا مطالبہ کرنے اور اس گرفتاری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

مختصر لنک:

کاپی