فلسطینی تنظیم پاپولرفرنٹ کے ایک دیرینہ رکن اور رہ نما سامر عرابید اس وقت فلسطینی خبروں کا ایک بڑا عنوان ہیں۔ عرابید اس وقت اسرائیل کی ایک جیل اسپتال میں ہیں جہاں انہیں وحشیانہ تشدد کے بعد حالت تشویشناک ہونے پرلایا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق 44 سالہ العرابید کو صہیونی ٹارچر سیل میں کیسے اذیتیں دی گئیں اور ایک بے گناہ شہری کو کس طرح مجرمانہ ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اس کی ہڈیاں تک توڑ دی گئیں۔
سامر عرابید کی زندگی اس وقت خطرے میں کیونکہ اسے صہیونی درندوں نے جس بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس کے بعد بربریت کے تمام مفہوم بے معنی ہوجاتے ہیں۔
صہیونی ریاست کے وحشی جلادوں کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے نہتے فلسطینیوں پر ماورائے عدالت غیرانسانی سلوک کوئی نئی بات نہیں بلکہ صہیونی ریاست کی مکروہ تاریخ اس طرح کے جرائم اور انسانیت سوزی کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی فوج اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے 99 فی صد فلسطینیوں کو جسمانی ، ذہنی اور نفسیاتی اذیتوں کے بدترین ہھتکنڈوں سے گذارا جاتا ہے۔
عبرانی میڈیا ذرائع نے گذشتہ رات انکشاف کیا تھا کہ رام اللہ میں "بم سیل کی رہنمائی کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد اسیر سامر العرابید کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس پر تشدد کرنے والوں میں صہیونی ریاست کا نام نہاد داخلی سلامتی کا ادارہ۔ شن بیٹ کے جلاد ہیں جنہوں نے قیدی کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اسیرشدت تکلیف سے ہوش کھو بیٹھا۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت’ کی رپورٹ کے مطابق خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے اسیر سامرالعرابید سے پوچھ تاچھ کے دوران’تفتیش برائے ضرورت’ کے نام سے مروجہ پالیسی پرعمل کرتے ہوئے اس پرتشدد کیا کیونکہ اس پالیسی کے تحت زیرحراست کسی بھی قیدی سے پوچھ گچھ کے دوران تشدد کے آخری درجے کے حربے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
ایک دوسرے اخبار”ہارٹز” نے بتایا کہ شن بیٹ نے رام اللہ سے قیدی سامر عرابید سے پوچھ گچھ کے دوران عدالت سے تشدد کے ممنوعہ حربوں کے استعمال کی اجازت لی تھی۔
قیدی سامر عرابید فلسطین کی پاپولر فریڈم مومونٹ کے رہ نما ہیں۔ اسرائیلی حکام نے ان پرالزام عاید کیا ہے کہ وہ اس چار رکنی مزاحمتی سیل کے سربراہ ہیں جس نے گذشتہ ماہ کے آخر میں عین بوبین کے مقام پر ایک یہودی آباد کار خاتون کو ہلاک اور اس کے والد اور بھائی کو زخمی کردیا تھا۔
قابض حکام نے چار مزاحمتی سیل کے ساتھ اس کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے عرابید کو "ٹائم بم” قرار دیتے ہوئے اس کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔
شاباک کے حکام کا کہنا ہے کہ عرابید کی گرفتاری سے غرب اردن میں مزاحمتی کارروائیوں میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔
نہتےقیدی پرتشدد کے مکروہ حربے
سامر عرابید کو نام نہاد "ملٹری انویسٹی گیشن” کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جس پر قابض ریاس اور اس کے سیکیورٹی ادارے عمل پیرا ہیں۔ حالانکہ کسی قیدی کو چاہے وہ کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہواس طرح بے دردی کے ساتھ تشدد کرنے کا مجاز نہیں۔ مگر صہیونی انٹیلی جنس ادارے صہیونی عدالتوں سے قیدیوں پر تشدد کے لیے اس طرح کے ممنوعہ اور مکروہ حربوں کی اجازت حاصل کرلیتے ہیں۔
قیدیوں پر تشدد کے ان حربوں میں کچھ مہلک ہتھکنڈے ہیں۔ان میں کئی کئی دن تک وحشیانہ جسمانی تشدد، مارپیٹ، جسم کےنازک حصوں پر ضربیں لگانا، بجلی کے جھٹکے لگانا، گرم سلاخوں ، جلتی سیگریٹ سے داغنا، سر کو سخت چیزوں جیسا کہ دیوار سے زور کے ساتھ مارنا، ریڑھ کی ہڈی پرضربیں لگانا سردیوں میں ٹھنڈا پانی ڈالنا اور گرمیوں میں کھولنا پانی پھینکنا، ہڈیوں کو توڑنا، ناخن کھینچنا، جسم کا گوشت نوچنا جیسے ان گنت دیگر حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اسیر العرابید کو گرفتاری کے بعد وحشیانہ تشدد کا نشاہ بنایا گیا۔ اسے جسمانی تشدد کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسے مسلسل بیدار رکھنے کے لیے اس کے پاس اونچی آواز میں موسیقی چلائی گئی اور اس پر بار بار پانی پھینکا جاتا رہا۔
انسانی حقوق کے مطابق اسرائیل میں "فوجی تفتیش” کے وحشیانہ حربے کے نتیجے میں کئی فلسطینی زندگی کی بازی ہارگئے۔ ان میں سنہ 1995 میں الخلیل سے تعلق رکھنے والےعبد الصمد احریزات سمیت متعدد قیدی شہید ہوگئے تھے۔
ایک اسرائیلی عدالت نے سنہ1999ء میں "ٹائم بم” کے علاوہ قیدیوں پر ہونے والے تشدد کو روکنے کا فیصلہ جاری کیا تھا ۔ ٹائم بم کی اصطلاح ان فلسطینیوں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جن کے پاس اسرائیلیوں کے حوالے سے حساس معلومات ہوں اور ان سے اسرائیلیوں کی جان کو خطرات لاحق ہوں۔ ایسے افراد کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
"ٹائم بم” کی پھسپھسی اصطلاح کی آڑ میں صہیونی عدلیہ نے انٹیلی جنس اداروں اور تفتیشی اداروں کے کتوں کو قیدیوں پر تشدد کا راستہ کھلا چھوڑ دیا۔
اگرچہ ابھی تک کوئی سرکاری اعدادوشمار موجود نہیں ہیں جن سے یہ نشاندہی کی جاسکے کہ صہیونی ٹارچر سیلوں میں اب تک کتنے فلسطینی قیدیوں کو اس طرح کی پرتشدد اور خطرناک تحقیقات کا نشانہ بنایا گیا ہے ، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیکڑوں فلسطینی قیدی اس خوفناک تجربے سے گذرے ہیں۔ انہیں۔ ایسے قیدویوں پر تشدد کے نتیجے میں طویل عرصے تک اس کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات باقی رہتے ہیں اور وہ معمول کی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔