‘مقبوضہ بیت المقدس میں قائم ‘القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن’ نے ‘افق پرمشکل محاذ آرائی’ کے عنوان سے ایک جائزہ جاری کیا ہے جس میں مسجد اقصیٰ پر آئندہ صیہونی انتخابات کے اٖثرات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تجزیاتی رپورٹ میں کہا گہا گیا ہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے سیاسی گروپ اپنے مخصوص سیاسی اور نظریاتی ایجنڈے کے تحت انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کے نظریات میں ہیکل سلیمانی جیسا مزعومہ اور مکروہ ایجنڈا سر فہرست ہوتا ہے۔ صہیونی کنیسٹ میں اسرائیل کے دائیں بازو کا اثر سنہ 2003ء سے شروع ہوا۔ سنہ 2003ء میں اسرائیل میں انتہا پسندوں کے حصے میں سنہ 2013ء میں 8 اور سنہ 2015ء میں 11 انتہا پسند وزیروں پر مشتمل ان کی حکومت قائم ہوگئی۔
یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ 4 اپریل ، 2019 میں ہونے والے 21 ویں کنیسٹ انتخابات میں امکان تھا کہ اسرائیل میں 13 انتہا پسند وزیروں پر مشتمل حکومت تشکیل دی جائے گی تاہم آوی گیڈور لائبرمین اور نیتن یاھو کےدرمیان معاہدہ نہ ہونے کے باعث حکومت کی تشکیل نہ ہوسکی اور 17 ستمبر 2019ء کو دوبارہ انتخابات کرائےگئے۔
نیتن یاہو کو احساس ہےانتہا پسند گروپ ان کے سب سے اچھے ساتھی ہیں، انہوں نے ان کی بحالی اور کامیابی کے لیے بہت تگ ودو کی۔ اس وقت بھی موجودہ نگران حکومت میں نیتن یاھو نے اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ اس وقت بھی 9 انتہا پسند وزراء حکومت میں شامل ہیں۔انہیں 13 وزارتی محکمے دیے گئے ہیں جوکابینہ کا کل 45 فی صد بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے دوبارہ قیام کی نگرانی کی۔ انہوں نے موشے ویگلن کو کابینہ میں کلیدی وزارت دینےکے ساتھ 28 رمضان المبارک اور عیدالاضحیٰ کے ایام میں یہودی آباد کاروں کو قبلہ اول پر اشتعال انگیز دھاووں کی مکمل سہولت اور سرپرستی فراہم کی۔
انتخابی نتائج کے لئے چار ممکنہ منظرناموں کا جائزہ لینے کے بعد ، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاسی گروہ نیتن یاہو کی فتح کے اثر و رسوخ کو مضبوط بنائیں گے۔ انتہا پسند حکومت کے آدھے قلمدانوں پر قابو پالیں گے۔
اس طرح مسجد اقصیٰ ایک بار پھر صہیونیوں کے رحم وکرم پرہوگی اور قبلہ اول کو ماضی کی نسبت زیادہ خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اسرائیلی حکومت ماضی کی نسبت زیادہ بڑھ چڑھ کر قبلہ اول کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا جائے گا۔