شنبه 16/نوامبر/2024

‘جب فلسطینی اسیر کے ننھے لخت جگر نے اپنی ماں سے پوچھا’

منگل 17-ستمبر-2019

اسرائیلی ریاست فلسطینی شہریوں کو گرفتار کرکے ان کےخلاف نام نہاد الزامات کے تحت مقدمات قائم کرتے ہوئے انہیں طویل المدت قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس طرح فلسطینی خاندانوں کو باہم منتشر کرنے اور ان میں احساس محرومی کے بیج بونے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی۔

ایک ایسا ہی فلسطینی ‘ایاد ابو زہرہ’ ہے جس کے کنبے کو اسرائیل نے کنبے کو منتشر کردیا، اپنے والد سے بچوں کو محروم کردیا۔ ایک میز پر اس کے ساتھ ان کا جمع ہونا ایک خواب بن گیا۔ جب سے قابض صہیونیوں نے طاقت کے ذریعے ایاد ابو زہرہ کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا ہے اس وقت سے اس کے بچے اپنے والد کا چہرہ دیکھنے اور اس کی ایک آواز سننے کو ترس گئے ہیں۔

نابلس کے رہائشی ابو زھرہ کا ایک سات سالہ بچہ دیع ایاد ابو زہرا ہر لمحے اپنے اسیر باپ کو یاد کرتا ہے۔ وہ دوسرے بچوں کو اپنے والدین کےساتھ ہنسے کھیلتے دیکھتا ہے تو یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش اس کا والد بھی اس کے ساتھ ہوتا اور وہ اپنی ہربات اس سے کے ساتھ شیئر کرتا۔

دو دن پہلے  ودیع قرآن حفظ مرکز سے واپس آیا اور اس نے نے اپنی والدہ سے پوچھا لفظ "اشہار” کا کیا مطلب ہے؟۔ ماں کو فورا خیال آیا کہ ودیع کے اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ حفظ کے مدرسے میں پڑھے والے دوسرے بچوں میں سے کسی کا والد آیا ہوگا جو اسے اپنے ساتھ اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت پر لے گیا ہوگا۔ ودیع اس لیے ‘اشہار’ کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔

ماں نے جب بیٹے کی یہ بات سنی کاش کہ میں بھی فلاں کی طرح اپنے والد کے ساتھ کسی طرف جاسکتا۔ اس کے اس معصومانہ انداز اور سوال کو سن کر ماں کا دل ٹوٹ گیا۔ ننھے ودیع کی بھی خواہش ہے کہ وہ اپنے کزنوں اور ہمسایوں کے بچوں کی طرح اپنے والد کے ساتھ خوشی غمی کے مواقع میں جاس سکتا مگر ہم صرف خواہش ناتمام ہی کرسکتے ہیں۔

نابلس کے  42 سالہ ایاد ودیع ابو زہرا بھی ضرور ان لمحات کے بارے میں سوچتا ہوگا کہ جو اس نے اپنے تین بچوں کے ساتھ گزارے ہوں گے۔

ودیع  کو کئی سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا اور کنبہ سے محروم رہا۔ اپنی زندگی کے آغاز میں ، وہ فلسطینی اتھارٹی کی جیلوں میں چار سال کے لئے نظربند رہا۔ انتفاضہ الاقصیٰ ضہ کے دوران  اس پر فائرنگ کی گئی اور وہ زخمی بھی ہوا۔

سنہ 2003ء میں گرفتاری سے قبل قابض صہیونی حکام ایک سال تک اسے تلاش کرتے اور گرفتار کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ اسے نو سال قید کی سزا سنائی گئی جو 2012 میں مکمل ہوئی۔

ابو زھرا کو سنہ 2015ء کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر ایتمار یہودی کالونی میں دو یہودی آباد کاروں کو قتل کرنے کا الزام عاید کیا گیا اور اسی الزام کے تحت اسے پابند سلاسل کردیا گیا گیا۔  ابو زھرہ کی سب سے بڑی بیٹی تالا اس وقت 16 سال کی ہے۔ وہ بھی اپنے والد کے ساتھ صرف ساڑھے تین سال ہی گذارسکی ہے۔ اس کےدو بھائی ہیں ودیع کی عمر 7 سال اور تولین کی 4 سال ہے۔

قابض صہیونی حکام نے ابو زھرہ کے گھر کومسمار کرنے کی دھمکی دی تھی تاہم اب اسے واپس لے لیا گیا ہے۔ ابو زھرہ کو ایتمار کالونی میں فدائی حملے میں معاونت کے الزام میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی جس میں سے چار سال وہ قید کاٹ چکا ہے۔ ابو زھرہ اس وقت جزیرہ نما النقب کی جیل میں قید ہے۔

اسیر کی اہلیہ ام ودیع کے لیے اپنےشوہر کے بغیر زندگی گذارنا اتناآسان نہیں مگر وہ زندگی کی گاڑی چلانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ اس نے بچوں کی تعلیم وتدریس بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔اس کی کوشش ہے کہ بچوں کو اپنے والد کی کمی کا احساس کم ہو مگر ایسا ہونا غیر فطری ہے۔

قیدی ابو زہرا کی بیٹی  تالا جلد ہی 16 سال کی ہو جائے گی ۔وہ اپنے والد کے ساتھ صرف ساڑھے تین سال رہی ہے ، اس کی والدہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتی ہیں کہ اگلے سال وہ ہائی اسکول کے امتحانات میں مصروف ہوں گی ، اور اس کے والد اس کے ساتھ نہیں ہوں گے۔

والدہ نے کہا ، "جب شوہر گرفتار ہوئے تومیں امید سے تھی۔ اس کی زندگی اور تعلیمی مراحل میں  والد موجود نہیں تھے۔

مختصر لنک:

کاپی