حال ہی میں اسرائیلی زندانوں میں صہیونی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کے باعث جام شہادت نوش کرنے والے بسام السائح میں کئی خوبیاں تھیں۔ وہ ایک مرد مجاھد تھا جس نے زبان وقلم اور بندوق سے جہاد فلسطین میں حصہ لیا۔ آخر کار دشمن کی قید میں لا علاج رہنے کے باعث جام شہادت نوش کرگیا۔
بسام السائح شہید نے ایک صحافی کی حیثیت سے قابض صہیونی ریاست کے تسلط کے خلاف مزاحمت کی۔ القسام بریگیڈ کے ایک کمانڈر رہا اور بندوق کا استعمال کرتے ہوئے غاصب صہیونیوں کے خلاف جدو جہد کی۔ اسرائیلی زندانوں میں طویل عرصے تک کینسر کے خلاف لڑتے ہوئے قید کاٹی۔ یوں اس نے بہادری، شجاعت، دلیری اور قربانی کی مثال قائم کی۔ کئی بیماریوں کا شکار ہونے کے باوجود جاتےہوئے یہ پیغام دے گئے کہ مزاحمت کے لیے قوت اور صحت ضروری نہیں۔ اگر جذبہ جواں اور بیدار ہوتو دشمن کی قید میں بے سروسامانی میں ، بیماریوں کے باوجود مزاحمت کی جاسکتی ہے۔
بسام السائح شہید نے اس وقت صہیونی دشمن کے خلاف بندوق اٹھائی جب یہودی دہشت گردوں نے نابلس شہر کے علاقے دوما میں دوابشہ خاندان کے کے کئی افراد کو ان کے گھر میں زندہ جلا کر شہید کردیا۔ دوابشہ خاندان کے ایک شیر خوار، اس کی ماں اور والد کی شہادت نے السائح میں انتقام کی آگ بھر گئی۔ اس نے بندوق اٹھائی اور غاصب صہیونیوں پر گولیاں چلا کرمتعدد کو جھنم واصل کردیا۔
ایتمار کا ہیرو
بسام السائح کا شمار ایتمار کے مقام پر کی گئی مزاحمتی کارروائی کے منصوبہ سازوں میں ہوتا ہے۔ فلسطینی مجاھدین اور اہل ایمان کو اس وقت تک سکون نہیں مل سکتا تھا جب وہ بے گناہ اور معصوم دوابشہ خاندان کے افراد کے قاتلوں کو سبق نہ سکھاتے۔
اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے بتایا کہ بسام السائح اس کا ایک فیلڈ کمانڈر تھا جو 8 نومبر 2019ء کو اسرائیلی جیل میں بے سرو سامانی اور لا علاج رہنے کے باعث جام شہادت نوش کرگیا۔ بسام کو اسرائیلی فوج نے 2015ء کو حراست میں لیا جس کے بعد القدس میں ایک نئی انتفاضہ شروع ہوگئی تھی جسے ‘انتفاضہ القدس’ کا نام دیا گیا۔
القسام بریگیڈ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ 47 سالہ بسام السائح ایتمار کے مقام پر یکم اکتوبر 2015ء کو کی گئی کارروائی کا منصوبہ ساز تھا جس میں دو غاصب صہیونی جھنم واصل ہوگئے تھے۔
گرفتاری
اسرائیلی فوج نے 8اکتوبر 2015ء کو بسام السائح کو ایک آپریشن میں حراست میں لیا۔ اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسرائیلی عدالت نے اسے دو بارتا حیات عمر قید اور 30 سال اضافی قید کی سزا سنائی۔ ان پر ایتمار کالونی میں فدائی حملے کی منصوبہ بندی کا الزام عاید کیا گیا اور اسی الزام میں اسے قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسرائیلی حکام کو علم تھا کہ بسام السائح کئی خطرناک اور جان لیوا امراض میں متبلا ہے تاہم اس کے باوجود صہیونی انٹیلی جنس اداروں نے اسے حراست میں لے لیا۔
ان کی اہلیہ عایشہ نے بتایا کہ سنہ 2005ء میں وہ اسرائیلی جیل میں قید تھیں اور ان کےشوہر ان سے ملنےآئے تو قابض فوج نے اس وقت بھی انہیں حراست میں لیا اور بتاح تکفا فوجی ٹارچر سیل میں اسے غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امراض میں مجرمانہ غفلت
بسام السائح شہید کو کئی امراض نے گھیر رکھا تھا۔ اسے دو طرح کا کینسر تھا۔ دل کے پٹھوں کی کم زوری، جگر کا پھول جانا، دونوں پھیپھڑوں میں پانی بھرجانے جیسے عوارض بھی لاحق تھے مگر اسرائیلی جیلوں میں اسے ان تمام امراض کے علاج کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے اتنی توجہ بھی نہیں دی گئی جتنی کہ زکام کے مریض کو دی جاتی ہے۔ وہ طویل عرصے تک جلبوع حراستی مرکز میں قدی رہا۔ اس جیل کو وہاں کے غیرانسانی حالات اور ماحول کی وجہ سے’ذبحہ خانہ’ قراردیا جاتا ہے۔
اسرائیلی جیل انتظامیہ نے ایک معمولی مریض سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اسے صرف درد کش ادویات دی جاتیں جب کہ کینسر جیسے امراض کے لیے بہت زیادہ توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے مگر اسے کسی قسم کی طبی امداد فراہم نہیں کی گئی۔