الشیخ جمال الطویل اسرائیل کی بدنام زمانہ جیل النقب میں قید ہیں۔ اگرچہ اس وقت وہ انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت پابند سلاسل ہیں مگر مجموعی طور پروہ اب تک 20 سال اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ وہ جب بھی اسرائیلی جیل میں قید کیے گئے ان کے اہل خانہ کو ان سے ملنےکی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے اہل خانہ بالخصوص ان کی اہلیہ کو ان سے ملنے کو توقطعی اجازت نہیں دی۔
مگر حال ہی میں الشیخ جمال الطویل کی اہلیہ منتھیٰ الطویل نے طویل جدو جہد کے بعد اپنے قیدی شوہر سے ملاقات کی اجازت حاصل کرلی ہی۔ بیس سال کی قید میں یہ پہلا موقع ہے جب الشیخ جمال الطویل کو دوران حراست ان کی اہلیہ کو ملنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اسرائیلی حکام کی طرف سے الشیخ جمال الطویل کو 45 منٹ کی ملاقات کی اجازت دی جس میں بعد میں پانچ منٹ کا اضافہ کیا گیا اور ملاقات کا وقت 50 منٹ پرمحیط تھا۔ یہ ملاقات تنہائی میں نہیں تھی بلکہ الشیخ جمال الطویل اور ان کی اہلیہ منتھیٰ طویل کےدرمیام آہنی سلاخوں کا جال تھا اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن سکتے تھے۔ اس موقع پربھی صہیونی جلادوں نےان پر ہرطرف سے بندوقیں تان رکھی تھیں۔
اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے رہ نما الشیخ جمال الطویل کی عمر 56 سال ہے اور وہ اپنی زندگی کے 20 سال اسرائیلی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ ان میں سے 12 سال کا عرصہ انتظامی قید پر مشتمل ہے۔ ان کی انتظامی حراست کا سلسلہ 2002ء سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ سب سے زیادہ قید کا عرصہ چھ سال پرمحیط تھا۔
رومانوی ملاقات کا سرپرائز
منتھیٰ طویل نے اپنے اسیر شوہرسے ملاقات کے لیے خود ہی رونمانوی انداز اختیار کیا۔ اسیر شوہر سےملاقات کے لیے منتھیٰ کو طویل جدو جہد کرنا پڑی۔ آخر کارمُنتھیٰ کی مساعی رنگ لائیں اور اسرائیلی حکام نے اسے اپنے شوہرسے ملاقات کی اجازت دے دی۔ منتھیٰ نے اجازت ملنے کےبعد اپنے بیٹے یحییٰ کو ساتھ لیا اور خاوند سے ملنے جزیرہ نما النقب پہنچ گئیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے منتھیٰ طویل کا کہنا تھا کہ میرےشوہرکو میری آمد اور ملاقات کا علم نہیں تھا۔ نہیں خوش گوار سرپرائز دینا چاہتی تھی اور یہ بات میں نے اپنے بیٹے یحییٰ کو بھی بتا دی کہ وہ والد کو پیشگی مطلع نہیں کرے گا۔ جیل میں پہنچنے کے بعد پہلے یحییٰ اپنے اسیر والد سے ملنے پہنچے۔ بیٹے اور والد کےدرمیان ہونے والی ملاقات کے چند منٹ میں منتھیٰ بھی شامل ہوگئیں۔منتھیٰ کو اپنے سامنے دیکھ کر الشیخ جمال الطویل کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی محبوب شریکہ حیات کو دیکھ رہےہیں۔ دونوں کےدرمیان 50 منٹ کی ملاقات رونمانوی ملاقات بن گئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو دنیا و ما فیھا سے لاپرواہ ہو کرخوب دیکھا اور جی بھرکر باتیں کیں۔
بیٹے یحییٰ کا کہنا ہے جب میرے والد نے اچانک اپنے سامنے والدہ کو دیکھا تو ان کی آنکھیں خوشی کے اشکوں سے تر ہوگئیں۔
یحییٰ نے بتایا کہ جب میرے اسیر والد اور ماں کے درمیان ملاقات ہورہی تھی تو وہا پرکئی دوسرے قیدی بھی جمع ہوگئے۔ انہوں نے صہیونی جیلروں کی موجودگی میں تالیاں بجا کر ملاقات کی مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پرقابض فوج نے دونوں کی ملاقات میں مزید پانچ منٹ اضافی دیئے۔ یوں دونوں کی رومانوی ملاقات تمام ہوگئی۔ یہ پچاس منٹ کی ملاقات دونوں میاں بیوی کے درمیان تاریخی اہمیت اختیار کرگئی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی ریاست برطانوی دور کے انتظامی حراست کے ایک ظالمانہ قانون پرعمل پیرا ہے۔ اس قانون کے تحت علاقائی فوجی کمانڈر کو کسی بھی فلسطینی کو کم سے کم سے کم دو ماہ اور زیادہ سے زیادہ 6 ماہ تک جیل میں ڈالنے کی اجازت ہے۔ بعد میں اس مدت میں باربار توسیع کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کئی فلسطینی اسیر کئی کئی سال تک صہیونی زندانوں میں انتظامی حراست کے تحت قید کاٹتے ہیں۔ رواں سال اسرائیلی عدالتوں سے 432 فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں دیں۔ ان میں سے 294 کی قید میں تجدید اور 138 کو پہلی بار سزا دی گئی۔ اسیران کو انتظامی حراست کے تحت دو سے چھ ماہ تک پابند سلاسل کیا گیا۔