اکیس اگست 1969ء کو گذرے آج 48 برست بیت گئے ہیں۔ آج سے اڑتالیس سال قبل انسان اور مذہب واخلاق کے دشمن صہیونیوں نے قبلہ اول کو نذرآتش کرنے کی جو مذموم اور مجرمانہ سازش کی تھی وہ اپنی شکل بدل بدل کر آج بھی مسلمانوں کے اس تیسرے مقدس مقام کو ضرر پہنچا رہی ہے۔
اکیس اگست کی تاریخ آتے ہی اہل فلسطین کے غم تازہ ہوجاتے ہیں۔ یہ تاریخ جہاں اہل فلسطین بالخصوص اور بالعموم عالم اسلام کے لیے ایک المناک دن تھا وہیں یہ صہیونی ریاست کی مکروہ سازشوں کی تاریخ کا ایک نیا باب تھا جب قبلہ اول کو آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگائی گئی۔ مسجداقصیٰ کی آتش زدگی کا واقعہ ہوئے نصف صد ہونے کو ہے مگر صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
قبلہ اول میں آتش زدگی،انسانی تاریخ کا المناک باب
اکیس اگست تاریخ انسانی کا وہ روز سیاہ ہے جس میں عالم انسانیت ایک ایسے ہولناک اور المناک لمحے سے گذری جب ایک جنونی یہودی دہشت گرد نے مسلمانوں کے قبلہ اول [مسجد اقصیٰ] کو آتش گیر مواد چھڑک کراسے نیست ونابود کرنے کی مذموم کوشش کی تھی۔
یہ واقعہ 21 اگست سنہ 1947 کی صبح مقامی وقت کے مطابق 6 بج کر 45 منٹ کا ہے جب آسٹریلوی نژاد یہودی دہشت گرد ڈینس مائیکل روہن نے مسجد اقصیٰ میں گھس کر اسے شہید کرنے کی مذموم اور ناقابل فراموش جسارت کا ارتکاب کیا۔ آتش گیر مادہ چھڑکنے کے ساتھ ہی مسجد کے مختلف اطراف میںآگ بھڑک اٹھی، مسجد میں موجود فرنیچر، قرآن پاک کے نسخے، اسلامی کتابیں، صلاح الدین ایوبی کے دور میں بنایا گیا مسجد کا منبر[ جو شام کےحلب شہر سے سنہ 1187ءمیں لایا گیا۔ معروف مسلمان فرمانروا سلطان نور الدین زنگی نے مسجد اقصیٰ کی صلیبیوں سے آزادی کے روز یہ منبر تیار کرایا تھا] کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ مسجد اقصیٰ میں لگائی گئی آگ کے شعلے بیت المقدس میں دور دور سے دکھائی دے رہے تھے۔ جس جس فلسطینی تک قبلہ اول میں آتش زدگی کی اطلاع پہنچی اس نے تمام مصروفیات ترک کیں اور قبلہ وال کی راہ لی۔ ایک یہودی دہشت گرد کی ناپاک جسارت کے باعث ہرفلسطینی اشکبار اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
یہ بحث آج تک جاری ہے کہ کیا یہ فقط ایک یہودی دہشت گرد اور مذہبی جنونی کی سازش تھی یا اس کے پس پردہ کسی منظم گروہ کی منصوبہ بندی شامل تھی۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ یہ کارروائی ڈینس مائیکل روہن کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی مگر اس طرح کی کسی بھی سنگین نوعیت کی مجرمانہ سازس کسی ایک فرد کی کارستانی نہیں بلکہ اس گھناؤنی حرکت کے پس پردہ صہیونی ریاست، انتہا پسند مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور دنیا بھر کی یہودی لابی ملوث تھی کیونکہ قبلہ اول میں آگ لگانے کی سازش کے مرتکب کو جس طرح سزا اور قانون کی گرفت سےفاتر العقل قرار دے کر بچانے کی مذموم کوشش کی گئی اس سے یہ صاف ظاہرہوتا ہے کہ اس مجرمانہ حرکت میں اسرائیلی ریاست بالواسطہ طورپر ملوث تھی۔
صہیونی ریاست کے ملوث ہونے کے کئی اور قرائن اورشواہد موجود ہیں۔ جب قبلہ اول میں آگ لگ چکی تو فلسطینی شہری اپنی آپ کے تحت سے بجھانے میں مصروف ہوگئے مگر صہیونی انتظامیہ کی طرف سے شہری دفاع اور فائر بریگیڈ کے عملے کو قبلہ اول کی طرف آنے سے روک دیا گیا۔ جبمسجد میں دور اموی میں بنائے گئے بیشتر مقامات جل کر راکھ ہوگئے تو اس کے بعد اسرائیلی فائر بریگیڈ کا عملہ وہاں پہنچا۔ اس کے ساتھ ہی صہیونی ریاست نے عالمی اور علاقائی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا ایک نیا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ معاملے کی فوری اور غیرجانب دارانہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا مگر اس سازش کے مرکزی کردار کے خلاف کارروائی کے بجائے اسے بیرون ملک فرار کی اجازت دے دی گئی۔
قبلہ اول میں آتش زدگی دراصل ناپاک صہیونیوں کی مسجد اقصیٰ میں دراندازی کا نقطہ آغاز تھا۔ سنہ2004 ء میں قبلہ اول میں یہودیوں کی یلغار اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس سال جاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ چار عشروں کے دوران انتہا پسند یہودی 3200 مرتبہ مسجد اقصیٰ پرحملے کرچکے ہیں۔ ان میں آتش زدگیوں، براہ راست فائرنگ اور قبلہ اول کی دیواریں کمزور کرنے کی گھناؤنی سازشیں بھی شامل ہیں۔
مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کا ہولناک واقعے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ واقعہ اس عرصے میں پیش آٰیا جب آزاد فلسطینی ریاست اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ اس موقع پر صہیونیوں کی جانب سے ایک نیا نعرہ ایجاد کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’یروشلم [بیت المقدس] کے بغیر اسرائیل کا کوئی وجود نہیں اور جبل ہیکل کے بغیر یروشلم کا کوئی وجود نہیں‘‘۔ جبل ہیکل سے یہودیوں کی مراد مسجد اقصیٰ ہے۔ یہاں سے صہیونیوں کی قبلہ اول پرقبضے اور اسے یہودیوں کے لیے مباح کرانے کی سازشوں کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
مگر اس سے بھی بڑا فتنہ سنہ 1916ء میں اس وقت سامنے آیا جب ترکی[خلافت عثمانیہ] اور عرب ریاستوں کی بندر بانٹ کی سازشوں کا آغاز ہوا۔ دنیا میں نئے اتحاد وجود میں آنے لگے۔ کئی مسلمان ملکوں نے برطانیہ اور دوسری مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنا تعلق جوڑا مگر بدقسمتی سے برطانیہ عظمیٰ نے بھی عربوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو ایفاء نہیں کیا۔ بلکہ ارض فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دینے کی مذموم سازش کے لیے بالفور ڈیکلریشن کااعلان کیا گیا۔
انہی سازشوں میں سائیس ۔ پیکو معاہدہ ایک ایسی سازش تھی جس نے القدس اور مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا۔ اسی عرصے میں ارض فلسطین پر قابض ایک برطانوی جنرل نے طاقت کے نشے میں کہا تھا کہ آج صلیبی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں۔ ایک فرانسیسی جنرل قورو نے تو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر کھڑے ہو غیرت مسلم کو یوں للکارا کہ’’صلاح الدین اٹھ، ہم دوبارہ آگئے ہیں‘‘۔
یہ ضروری نہیں کہ جس صلیبی فوج سے صلاح الدین کی افواج کا مقابلہ ہوا وہی ایک بار پھر سامنے آئے۔ اب کی بار عالم اسلام کو صہیونی صلیبی کے زیادہ سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ کیونکہ یہ صہیونی صلیبی مجرم توراتی، تلمودی مذہبی تعلیمات کے پجاری، اسٹریٹیجک اہداف کے ماہر اور بے رحم دلوں کے مالک ہیں۔
سنہ 1948ء کی قیام اسرائیل کی جنگ صرف فلسطینیوں کے لیے ’نکبہ‘ نہیں بلکہ یہ جنگ مسجد کو شہید کرنے کی مذموم سازشوں کا تسلسل تھی جس کے 19 سال بعد یہ سانحہ عظیم رنما ہوا۔ مسجد اقصیٰمیں آتش زدگی صرف بیت المقدس یا قبلہ اول کا سانحہ نہیں بلکہ اس واقعے نے پوری اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مگر اس وقت بھی صہیونیوں کی خوئے انتقام پوری شدت کے ساتھ موجود تھی۔ جب اسرائیلی فوج کے چیف ربی جنرل شلومو قورین نے قبۃ الصخرہ میں داخل ہونے کی مذموم کوشش کرت ہوئے ایک ہاتھ میں تورات اور دوسرے میں آتشیں اسلحہ لہرا کر کہا تھا کہ مجھے مسجد اقصیٰ کے قلب سے بارود کی بو آ رہی ہے۔
اس وقت عالم اسلام ایک بار پھرخاموشی کی گہری نیند میں غرق ہے۔ ایسے لگ رہاہے کہ مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے سانحے کو نصف صدی گذرنے کے بعد آج کے مسلمان اس سے بالکل فراموش کرچکے ہیں۔ سانحے کے وقت عالم اسلام اور عرب دنیا کی یکجہتی بے مثل تھی مگر اب بات صرف مخصوص نعروں تک محدود ہوچکی ہے۔
اگلے مرحلے میں جنرل شلومو قورین اور دیگر فوجی جنرل دیوار براق، المغاربہ کالونی، الشرف کالونی اور مسجد اقصیٰ سے متصل دیگر مقامات میں نہایت تکبر کے ساتھ داخل ہوئے اور دیوار براق پر اسلحے کے زور پر قبضے، مراکشی دروازے کو کھلونے کے اعلانات اور قبلہ اول کے دوسرے دخلی اور خارجی دروازوں پرقبضے کے اعلانات کیے۔ یہودی فوجی جرنیلوں کی آمد کے بعد عام یہودیوں کے لیے قبلہ اول میں داخلے اور نام نہاد مذہبی رسومات کی ادائی کی راہ ہموار ہوئی۔ آج یہودی اس سازش کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے صرف مذہبی رسومات ہی نہیں بلکہ قبلہ اول کی زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کی سازشوں تک آ پہنچے ہیں۔
صلیبیوں اور صہیونیوں کی عالمی سازشوں نے اس وقت اسلامی دنیا بالخصوص عرب دنیا کو ایک نئی کمشکش میں ڈال دیا ہے۔ شام، عراق، مصر اور دوسرے عرب اور مسلمان ملکوں میں آگ اور خون برس رہا ہے۔ اس لیے عالم اسلام کی توجہ قبلہ اول کی طرف ماضی کی طرح نہیں رہی ہے۔
صہیونیوں کے دعوے
صہیونی ریاست کی طرف سے قبلہ اول میں آتش زدگی کے اصل مجرموں کو چھپانے کے لیے کئی طرح کے بہانے اور حیلے سازیاں کی گئیں۔ ایک یہ دعویٰ کیا گیا کہ مسجد اقصیٰ میں آگ کسی شخص نے نہیں لگائی بلکہ آگ بجلی کے شارٹ سرکرٹ کے باعث لگی۔
القدس کی الیکٹرک کمپنی نے اپنے طورپرتحقیقات کیں تو صہیونی ریاست کے اس ڈھونگ کا پول بھی کھل گیا۔ کمپنی کی طرف سے بتایا گیا کہ قبلہ اول میں بجلی کی وائرنگ میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ کمپنی کی طرف سے واضح کیا گیا کہ آتش زدگی کا بجلی کے شارٹ سرکٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
بیت المقدس میں اس وقت کی سپریم اسلامی کمیٹی کے چیئرمین الشیخ حلمی المحتسب نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ قبلہ اول میں آتش زدگی کا بجلی کے نظام کی خرابی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی۔
انہوں نے بتایا جب قبلہ اول میں آگ لگی تو اس کے ساتھ ہی اسرائیلی انتظامیہ نے حرم قدسی کو جاری کردہ پانی کی ترسیل بند کردی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں المحتسب نے بتایا کہ رام اللہ سے طلب کیے گئے فائر بریگیڈ کے عملے کو بیت المقدس میں غاصب اسرائیلی بلدیہ کے عملے نے روک دیا۔ الخلیل سے آنے والی ٹٰیموں کو بھی روکا گیا جس کے باعث آگ بجھانے کے آپریشن میں غیرمعمولی تاخیر ہوئی۔
آگ بجھانے کے عمل میں عام شہریوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا، مگر اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے دیدہ ودانستہ طورپر مسجد اقصیٰ کا پانی بند کردیا جس کے نتیجے میں پانی کےحصول میں شدید مشکلات درپیش آئیں۔
برائے نام تحقیقات کے لیے اسرائیل نے 23 اگست کو قبلہ اول میں آتش زدگی کے مجرم آسٹریلوی نژاد28 سالہ ڈینس ولیم روہان کو حراست میں لیا۔ روہان اس مجرمانہ واردات سے 4 ماہ قبل اسرائیل آیا تھا۔ اس کا تعلق’کینسۃ الرب‘ ک ساتھ تعلق تھا اور یہ گروپ یہودیوں کے اسرائیل کی طرف منتقلی کا سب سے زیادہ پرچارک اور مسجد اقصیٰ کے وجود کو جلد از جلد ختم کرنے کے خطرناک نظریات کا حامل ہے۔