شنبه 03/می/2025

الشیخ احمد نمر جہاد، دعوت اور عزیمت کی جہد مسلسل!

منگل 6-اگست-2019

فلسطین کی اسلامی تحریک کےممتاز رہ نما الشیخ احمد نمرحمدان 81 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ الشیخ نمرحمدان کی وفات نے پوری مسلم امہ کو سوگوار کردیا۔

ان کی وفات سے بالعموم پوری مسلم امہ بالخصوص فلسطینی قوم اس وقت صدمے سے دوچار ہے۔ الشیخ نمر جیسے عظیم المرتبت علماء، دعات، مجاھدین اور اصحاب عزیمت کا اٹھنا کسی بڑے امتحان سے کم نہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے الشیخ نمرحمدان کی زندگی کے بعض گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کی پوری زندگی قابض صہیونی ریاست کے مظالم کے خلاف جدو جہد سے عبارت رہی۔ بار بار انہیں حراست میں لیا جاتا اور جیلوں میں غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا۔ کئی بار انہیں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس نے بھی حراست میں لیا مگراس کے باوجود ان کے جذبہ حریت، جوش اور ولولےمیں کوئی کمی نہیں آئی۔

غزہ کی پٹی کے علاقے خان یونس کا بچہ بچہ الشیخ نمرحمدان کی جوش خطابت کا اسیر رہا ہے۔

طویل عرصے تک انہوں نے جنوبی غزہ میں خان یونس کی جامع مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیئے۔ پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران انہیں اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا اور اس کے بعد انہیں بار بارحراست میں لیا جاتا رہا۔

ثابت قدمی، استقامت اور جرات وبہادری کی زندہ علامت الشیخ نمرحمدان نے صہیونی دشمن کے تمام وحشیانہ حربے صبر کے ساتھ برداشت کیے مگردشمن کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔

الشیخ نمرحمدان سنہ 1938ء کو بشیت کے مقام پر پیدا ہوئے۔ وہاں سے وہ اپنے خاندان کے ہمراہ غزہ ھجر کرگئے۔ غزہ میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈورکس ایجنسی’اونروا’ کے اسکولوں سے تعلیم حاصل کی۔تعلیم سے فراغت کے بعد وہ غزہ میں اسکولوں میں درس وتدریس کے عمل سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دعوت وجہاد کے میدان میں بھی اپنی خدمات انجام دینا شروع کیں۔

سنہ 1992ء کو اسرائیل نے اسلامی جہاد اور اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے 415 رہ نمائوں کو مرج الزھور بدر کردیا۔ ان میں الشیخ نمر حمدان بھی شامل تھے۔

سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی کےقیام اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے تحریک فتح کے فیصلے کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں الشیخ حمدان بھی پیش پیش رہے۔

غزہ میں جمعہ کی نماز کا خطبہ دیتے وقت ایک اسرائیلی دہشت گرد نے ان پر فائرنگ کی مگر گولی چند سینٹی میٹر کے فاصلے سے گذر گئی اور وہ بال بال بچ گئے۔

خان یونس کے مقامی شہری الشیخ نمرحمدان کو شہداء کا والد کہا کرتے۔ ان کے متعدد صاحبزادے شہید اور اسرائیلی جیلوں میں قید رہے۔ اب بھی ان کا ایک بیٹا منیب 10 سالسے اسرائیلی جیل میں قید ہے۔ جبکہ حسام کو اسرائیلی فوجیوں نے گولیاں مارکر شہید کردیا تھا۔

عمر کے آخری حصے میں الشیخ نمرحمدان بلند فشار خون اور ذیابیطس کے مرض کا شکار ہوگئے تاہم اس کے باوجود انہوں نے خطابت اور امامت کےفرائض کی انجام دہی جاری رکھی۔

گذشتہ روز ان کی وفات پر حماس اور اسلامی جہاد سمیت فلسطین کی بیشتر مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا۔

حماس کی طرف سے جاری ایک بیان میں الشیخ نمرحمدان کو’عظیم لیڈر’ قرار دیا اور ان کی زندگی میں ان کے کارناموں، جرات اور بہادری کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔

فلسطینی علماء، مساجد کے آئمہ اورخطباء نےبھی الشیخ نمرحمدان کی وفات پر گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے ان مغرفت، جنت میں مقام کے لیے دعائوں کے ساتھ پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی